فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے واضح کیا ہے کہ جب تک ایک آزاد اور مکمل خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی، وہ اپنی مسلح جدوجہد ترک نہیں کرے گی۔
عرب میڈیا کے مطابق حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق بالواسطہ مذاکرات گزشتہ ہفتے کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے۔
ان مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے قطر اور مصر نے فرانس اور سعودی عرب کے اس مشترکہ اعلامیے کی توثیق کی ہے، جس میں اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کی تجاویز دی گئی ہیں۔ اعلامیے میں یہ تجویز بھی شامل تھی کہ حماس کو اپنے ہتھیار مغرب نواز فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنا ہوں گے۔
حماس نے اس تجویز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک مسلح مزاحمت ترک نہیں کرے گی، جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی، جس کا دارالحکومت القدس ہو۔
یاد رہے کہ اسرائیل کسی بھی ممکنہ امن معاہدے کی بنیادی شرط حماس کا ہتھیار ڈالنا قرار دیتا رہا ہے، لیکن حماس کئی بار واضح کر چکی ہے کہ وہ اپنے دفاعی ہتھیار نہیں چھوڑے گی۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ آزاد فلسطینی ریاست اسرائیل کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے فلسطینی علاقوں پر سیکیورٹی کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہنا چاہیے۔ انہوں نے ان ممالک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
واضح رہے کہ نسل کشی کی یہ جنگ سات اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی، جب حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 1200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنایا گیا۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کی ایک ایسی جنگ دیکھنے کو ملی ، جس میں شہری آبادی اور اسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، جس سے غزہ میں تقریباً 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے، جن میں کثیر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے حالیہ بیان پر بھی حماس نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ وٹکوف نے غزہ میں قحط کی موجودگی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ صورتحال اتنی سنگین نہیں جتنی بیان کی جا رہی ہے۔
حماس نے اس بیان کو “گمراہ کن اور ایک تیار شدہ ڈرامہ” قرار دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ امریکی ایلچی کی جانب سے امدادی مراکز کے دورے اور پرامن امداد کی تقسیم کی تصاویر حقائق کو چھپانے کی کوشش ہیں، جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اسرائیلی گولیوں سے اب تک 1300 سے زائد بھوکے اور بے گناہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
حماس نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی جرائم پر پردہ ڈالنے کے بجائے جنگ بندی کے ایسے معاہدے کی طرف بڑھے، جو اسرائیلی فوج کے انخلا اور محاصرے کے خاتمے پر منتج ہو۔
مزید پڑھیں: پاکستانیوں نے انڈین رافال کیسے مارگرایا؟ تفصیلات سامنے آگئیں
اس کے علاوہ حماس نے ان میڈیا رپورٹس کو بھی مسترد کر دیا ہے، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ حماس ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جب تک القدس دارالحکومت کے طور پر ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آتا، وہ اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھے گی۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق غزہ میں غذائی قلت کے باعث گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ایک بچے سمیت مزید سات افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مجموعی طور پر قحط کے باعث اب تک 169 افراد جان سے جا چکے ہیں، جن میں 93 بچے شامل ہیں۔
اقوامِ متحدہ اور عالمی امدادی اداروں نے بھی صورتحال کو نہایت سنگین قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں امدادی مراکز انسانی زندگی بچانے کے بجائے “موت کے جال” بنتے جا رہے ہیں۔