پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے 2025 کا آغاز ایک اور تکلیف دہ حقیقت کے ساتھ ہوا ہے جس نے ٹیم کو عالمی ٹیسٹ کرکٹ میں نہ صرف پچھلے 35 برسوں کا بدترین ریکارڈ یاد دلا دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ میں بھی شدید زوال کی گہرائیوں میں دھکیل دیا۔
ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں 120 رنز کی بدترین شکست نے پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کیا۔
یہ پاکستانی کرکٹ کی وہ بدترین گھڑی تھی جب ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ پر ایک اور ٹیسٹ میچ ہار گئی۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف 120 رنز کی شکست نہ صرف پاکستان کرکٹ کے شائقین کے لیے ایک جھٹکا تھی بلکہ اس نے پاکستان کو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ کے اسٹینڈنگ میں بھی آخری نمبر پر پہنچا دیا۔
پاکستان کی کارکردگی کا یہ گراؤنڈ پر مکمل طور پر زوال دکھانے والا منظر تھا اور اس میچ کے بعد پاکستانی ٹیم ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے پوائنٹس ٹیبل میں آخری پوزیشن پر پہنچ گئی۔
2023 سے 2025 کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے دوران گرین شرٹس نے 14 میچز میں سے صرف 5 میچز جیتے جبکہ باقی میچز میں انہیں ناکامی کا سامنا رہا۔
سلو اوور ریٹ کے باعث بھی ٹیم کو پوائنٹس کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ان کی مجموعی پرسنٹیج محض 27.98 پر پہنچ گئی۔
گزشتہ دہائی میں پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کا سفر کسی بھی لحاظ سے قابلِ فخر نہیں رہا۔
2015 سے 2025 تک پاکستان کا ریکارڈ مسلسل ناقص رہا ہے۔ 2015 کے بعد پاکستان نے اپنے 40% ٹیسٹ میچز ہی جیتے، اور اس دوران ان کے ہوم گراؤنڈ پر غیر متوقع شکستیں معمول بن گئیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم نے جس طرح کی کارکردگی اس وقت دکھائی، اس سے شائقین کرکٹ اور سابق کھلاڑیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔
ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی جانب سے اس میچ میں انتہائی عمدہ کارکردگی دیکھنے کو ملی اور ان کے کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم کو ہرا کر اپنے ہوم گراؤنڈ کی تقدیر کو بہتر کیا۔
ویسٹ انڈیز کے اس شاندار سفر کا اختتام ایونٹ میں آٹھویں پوزیشن پر ہوا۔
پاکستانی کرکٹ کی یہ بدترین کارکردگی کسی بھی طرح سے نئی نہیں ہے لیکن اس میں اب نیا عنصر یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ میں فائنل تک پہنچنے کی امیدیں پوری طرح ختم ہوگئی ہیں۔
پاکستان کے اس سفر کے باقی حصے میں اب کوئی بھی سیریز شیڈول نہیں ہے اور ٹیم کو اپنی ٹیسٹ کرکٹ کی میراث کو سنبھالنے کے لیے مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔
اس صورتحال نے جنوبی افریقہ کو سرفہرست رکھا جبکہ ان کا مقابلہ فائنل میں آسٹریلیا سے ہوگا۔ پاکستان کے لیے یہ وقت سوچی سمجھی حکمت عملی کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ سوال اب سب کے ذہن میں ہے کہ آیا پاکستانی ٹیم اپنے ٹیسٹ کرکٹ کے زوال کا خاتمہ کر سکے گی یا یوں ہی ماضی کی طرح شائیقین کرکٹ بس مایوسی کا منہ دیکھیں گے؟