پاکستان اور ایران نے حالیہ دنوں میں دو طرفہ تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اہم معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن میں تجارت، زراعت، توانائی اور ثقافت جیسے شعبے شامل ہیں۔
ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے پاکستان کے دو روزہ دورے کے دوران ان معاہدوں کی تفصیلات بتائیں۔ ان معاہدوں کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارت کو تین ارب ڈالر سے بڑھا کر 10 ارب ڈالر تک لے جانا ہے۔
وزیر تجارت پاکستان جام کمال خان نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے اور ان معاہدوں سے نہ صرف اقتصادی ترقی ممکن ہو گی بلکہ دونوں ممالک کے عوام کی زندگیوں میں بھی بہتری آئے گی۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں ممالک تجارت کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اس حوالے سے نیا تجارتی راستہ کھل رہا ہے۔
ایران کے وزیر تجارت محمد عطا آتابک نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان مواصلات اور تجارت کے مزید مواقع موجود ہیں اور ہم اس بات پر خوش ہیں کہ تجارت بڑھانے کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھی جا رہی ہے۔

تاہم ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایران امریکی پابندیوں کے باوجود ان معاہدوں کو عملی شکل دے سکے گا؟
ایران اور پاکستان کے درمیان یہ معاہدے اس پس منظر میں کیے گئے ہیں جب ایران پر امریکی پابندیاں عائد ہیں جن کے اثرات تجارتی تعلقات پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان اور ایران نے اس معاملے پر قابو پانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جن میں بارٹر سسٹم اور سرحدی تجارت کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔
دونوں ممالک کی سرحدی مارکیٹوں کی فعالیت اور بارٹر ٹریڈ پر زور دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ممالک اپنے تجارتی سامان بغیر کسی عالمی ریکارڈ کے ایک دوسرے کو فراہم کر سکتے ہیں اور اس پر امریکی پابندیاں اثر انداز نہیں ہوں گی۔
ڈاکٹر قندیل عباس جو قائد اعظم یونیورسٹی میں عالمی تعلقات کے استاد ہیں انہوں نے نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ سرحدی تجارت کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور یہ وہ راستہ ہے جس پر عالمی پابندیاں لاگو نہیں ہو سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی غیر موجودگی میں سیاست کا نقشہ کیسے بدلا؟
پاکستان اور ایران کی سرحد پر پانچ مارکیٹیں پہلے ہی فعال ہیں اور حکومت نے مزید مارکیٹوں کے قیام کا بھی عندیہ دیا ہے۔ علاوہ ازیں ایرانی صدر نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایران سی پیک منصوبے میں دلچسپی رکھتا ہے اور دونوں ممالک چابہار اور گوادر کو آپس میں ملانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
پاکستان کے سابق سفیر آصف درانی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان ہونے والے یہ معاہدے اس بات کا غماز ہیں کہ دونوں ممالک اپنے مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں اور امریکا بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ یہ معاملات دونوں ممالک کے داخلی تعلقات ہیں۔
ایران نے توانائی کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ مزید تعاون کی پیشکش کی ہے خاص طور پر ایران سے سستا تیل اور گیس خریدنے کی تجویز دی گئی ہے جو پاکستان کے توانائی کے بحران کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ طور پر یہ عزم ظاہر کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی اور سرحدی مسائل کے حل کے لیے تعاون مزید بڑھایا جائے گا اور یہ معاہدے ایک پائیدار شراکت داری کی بنیاد فراہم کریں گے۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے پاکستان کا موقف واضح ہے اور انہوں نے ایران کے حق میں پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا۔

یہ معاہدے دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کو بڑھانے کے لیے ایک اہم قدم ہیں اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود یہ تجارت اور سرمایہ کاری کس حد تک کامیاب ہو پاتی ہے۔
دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط تجارتی روابط قائم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں اور یہ ممکنہ طور پر دونوں ممالک کی اقتصادی صورتحال میں بہتری لا سکتا ہے۔
واضع رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبہ جو 2009 میں دستخط ہوا تھا ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ ایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کر لیا ہے مگر پاکستان ابھی تک اپنے حصے پر کام شروع نہیں کر سکا۔
امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کو اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ 2024 میں پاکستان نے امریکا سے اس منصوبے کے لیے استثنیٰ کی درخواست کی تھی لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔
مزید پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کو دو سال مکمل، عمران خان کی غیرموجودگی میں سیاست کا نقشہ کیسے بدلا؟
پاکستان کی توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ منصوبہ اہم ہے کیونکہ ایران کے ساتھ قدرتی گیس کی ترسیل پاکستان کے لیے سستی پڑ سکتی ہے لیکن امریکی پابندیاں اس میں رکاوٹ ہیں۔
ایران نے پاکستان کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے جس میں پاکستان پر 18 ارب ڈالر جرمانہ عائد ہو سکتا ہے اگر منصوبہ مکمل نہ کیا گیا۔
اس کے علاوہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاہم امریکا کے دباؤ اور پابندیوں کے درمیان ایک مشکل توازن بنائے رکھنا پڑ رہا ہے۔