بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں پارلیمانی انتخابات فروری میں کرائے جائیں گے۔
قوم سے اپنے ٹیلیوژن خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن کمیشن سے درخواست کریں گے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے قبل انتخابات منعقد کرائے جائیں، جو 17 یا 18 فروری کو چاند نظر آنے پر شروع ہونے کا امکان ہے۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب بنگلہ دیش میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف طلبہ تحریک کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے، جس کے نتیجے میں حسینہ کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا تھا۔
واضح رہے کہ محمد یونس مائیکرو کریڈٹ کے حوالے سے نوبل انعام یافتہ ہیں، انہوں نے ملک کے جمہوری مستقبل کی بنیاد نوجوانوں کی تحریک کو قرار دیا۔ تاہم عبوری حکومت پر بدامنی ختم کرنے اور سیاسی کشیدگی پر قابو نہ پانے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
انتخابات کی تاریخ تو ایک بڑا مسئلہ ہے، مگر سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ پر پابندی بھی بین الاقوامی برادری کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ محمد یونس کا کہنا ہے کہ وہ شفاف اور قابل قبول انتخابات کے لیے پرعزم ہیں، مگر تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کے بغیر یہ انتخابات متنازع ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ شیخ حسینہ گزشتہ سال پانچ اگست سے انڈیا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور طلبہ تحریک کے دوران سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے الزامات ہیں، جن کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
محمد یونس نے پہلے اپریل میں انتخابات کرانے کی خواہش ظاہر کی تھی، تاہم بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) اور دیگر بڑی جماعتوں کے مطالبے پر اب یہ انتخابات فروری میں کرائے جائیں گے۔ اس موقع پر یونس نے سیاسی رہنماؤں کے ہمراہ قومی اتحاد، جمہوری اصلاحات اور جامع حکمرانی کا روڈ میپ بھی پیش کیا۔
مزید پڑھیں: ’خوراک کے لیے نکلی مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا‘ غزہ بھوک، بے بسی کی تصویر بن گیا
خیال رہے کہ بی این پی کی سربراہ اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیا شیخ حسینہ کی روایتی حریف ہیں اور ان کی جماعت انتخابات کی بڑی امیدوار سمجھی جا رہی ہے۔
دارالحکومت ڈھاکہ میں سب سے نمایاں موجودگی جماعت اسلامی کے کارکنوں کی رہی، جو بنگلہ دیش اور فلسطین کے پرچم اٹھائے سڑکوں پر نکلے۔
بنگلہ دیش اس وقت ایک نازک دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں سیاسی جماعتیں ایک جامع سیاسی راستہ نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں، مگر جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے سیاسی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔