پاکستان اور ایران کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے ایک نیا سیاسی منظرنامہ تخلیق کیا ہے، جس کا اثر نہ صرف اسلام آباد بلکہ آہستہ آہستہ پورے خطے پر پڑ رہا ہے۔
ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا حالیہ دورہ پاکستان، جہاں ایک طرف دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور سکیورٹی تعلقات میں نئی جان پڑ رہی ہے، وہیں دوسری طرف انڈیا میں مودی سرکار کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
ایرانی صدر کا یہ دورہ انڈیا کے لیے ایک واضح پیغام بن چکا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنے میں ناکام ہو گیا ہے اور اس کی قیمت انہیں اب عالمی سطح پر چکانی پڑے گی۔
ایرانی صدر کا اسلام آباد دورہ ایک اہم علامت ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں ایک نئی گرمجوشی اور عزم کی ہوا چل رہی ہے۔ ایران کے صدر نے اس دورے کا آغاز لاہور سے کیا جہاں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ان کا استقبال کیا۔ لاہور میں ہونے والی اس گرمجوشی کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہے، جہاں دونوں ممالک کے عوامی اور ثقافتی تعلقات ایک مضبوط بنیاد رکھتے ہیں۔
ایرانی صدر نے مزار اقبال پر حاضری دی، جو ان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ فکری ہم آہنگی کے عزم کی علامت تھی۔ علاوہ ازیں ایران اور پاکستان کی جغرافیائی قربت اور تاریخی تعلقات میں کبھی مکمل تعطل یا کشیدگی کا سامنا نہیں ہوا بلکہ دونوں ممالک نے کئی بار ایک دوسرے کی مدد کی، جیسے کہ ایران نے پاکستان-انڈیا کشیدگی کے دوران پاکستان کی کھل کر حمایت کا علان کیا اور وہیں پاکستان نے ایران-اسرائیل کشیدگی میں ایران کا کھل کر ساتھ دیا۔
انڈیا کے لیے ایران اور پاکستان کے درمیان بڑھتے تعلقات تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ جب ایرانی قیادت نے پاکستان کو عظیم دوست قرار دیا تو انڈیا کے لئے یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ علاقائی سیاست میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اس سے انڈیا کو اپنے اتحادیوں اور پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

انڈیا نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی ہے، جب کہ ایران ماضی میں انڈیا کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اس کے باوجود انڈیا کی پالیسی میں ایران کے بارے میں سردمہری رہی ہے، جس کا نتیجہ آج انڈیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اب ایران چین کے ساتھ مل کر پاکستان کے سی پیک کو یمن کے راستے جوڑنے کی حکمتِ عملی پر کام کر رہا ہے، جس سے خطے میں معاشی توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ چین کی ایران اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری نے انڈیا کو معاشی اور سفارتی طور پر دباؤ میں لا کھڑا کیا ہے۔
انڈیا جو ہمیشہ خطے میں اپنے اقتصادی اثر و رسوخ کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے، اب اسے چین اور ایران کی مشترکہ سرمایہ کاری کی وجہ سے ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔
ایرانی صدر کا دورہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ایک کلیدی موضوع رہا۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کے توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے اہم ہے بلکہ عالمی سطح پر اس پر مختلف نوعیت کی رائے پائی جاتی ہے۔
امریکی پالیسی میں معاشی مفادات اولین حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کے لئے اب کسی ملک کے لئے دوسرے ممالک پر پابندیاں لگانا اتنا آسان نہیں رہا۔ ایران اور پاکستان کی یہ مشترکہ کوششیں امریکی دباؤ کو کم کر سکتی ہیں اور دونوں ممالک کے لیے ایک نئے معاشی راستے کی کھوج کر سکتی ہیں۔
ایرانی صدر کے ہمراہ سستان و بلوچستان کے حکام کا دورہ بھی اس بات کا غماز تھا کہ دونوں ممالک نے سرحدی تجارت کو مزید مستحکم کرنے کی حکمت عملی پر بات چیت کی ہے۔
ایران اور پاکستان نے سرحدی تجارتی زون کے قیام پر اتفاق کیا تاکہ منظم تجارت کو فروغ مل سکے اور سمگلنگ کا مؤثر خاتمہ کیا جا سکے۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی دونوں ممالک نے اپنی سرحدوں پر اقتصادی ترقی کے نئے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو نہ صرف دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو گا بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثبت پیغام ہو گا۔

عالمی تعلقات کے ماہر پروفیسر چاند شکیل نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں یہ نیا جذبہ بالخصوص اقتصادی اور سکیورٹی تعاون کے حوالے سے انڈیا کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔
مودی سرکار نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس کا نتیجہ آج انہیں بھرنا پڑ رہا ہے۔ اگر انڈیا کو اپنی پوزیشن مضبوط رکھنی ہے تو اسے ایران کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔
پروفیسر چاند شکیل کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانا ایک اسٹرٹیجک فیصلہ ہو سکتا ہے اور دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات میں مزید اضافہ دونوں کے لیے خوشحالی کا باعث بنے گا۔
لاہور کے ایک نوجوان شاہد بلال نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ایران اور پاکستان کے درمیان یہ بڑھتا ہوا تعلق ایک نئی امید کی کرن ہے۔ یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ اب ہم اپنے پڑوسی ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط کر رہے ہیں کیونکہ اس سے نہ صرف ہماری توانائی کی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بھی مزید مستحکم ہوں گے۔ مودی سرکار کی پالیسیوں کے برعکس ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں توازن اور باہمی فائدہ تلاش کرنا چاہیے۔
ایرانی صدر کا پاکستان کا یہ دورہ دراصل ایک نئی عالمی حقیقت کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں یہ نئی گرمجوشی نہ صرف دونوں ممالک کے لیے خوش آئند ہے بلکہ انڈیا کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔