اسرائیلی افواج کے تازہ فضائی اور زمینی حملوں میں غزہ بھر میں کم از کم 83 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں، جب کہ مزید آٹھ افراد بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گئے ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت اور طبی ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں وہ شہری بھی شامل ہیں، جو امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ تنظیم جی ایچ ایف کے امدادی مراکز کے قریب خوراک کے حصول کے لیے موجود تھے۔
عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کی نمائندہ ہند خضری کے مطابق پانچ افراد کو اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، جب وہ امداد کی قطار میں کھڑے تھے۔ عینی شاہدین اور اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ زخمی افراد کو سر، گردن اور سینے میں گولیاں لگی ہیں، جن کا علاج انتہائی مشکل ہے۔
غزا کے مختلف علاقوں میں روزانہ یہی مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ شہری امداد لینے آتے ہیں اور اسرائیلی فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ زخمیوں کی بڑی تعداد کو اسپتالوں میں لایا جا رہا ہے، جہاں طبی سہولیات پہلے ہی ناکافی ہیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے جی ایچ ایف کے طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امدادی مراکز میں سیکیورٹی کی صورتحال نہایت خراب ہے۔

غزا کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 1560 فلسطینی اسرائیلی فائرنگ کا نشانہ بن چکے ہیں جب کہ بھوک اور غذائی قلت کے باعث شہید افراد کی تعداد 188 ہو گئی ہے، جن میں 94 بچے شامل ہیں۔
ایک بزرگ شہری سلیم اسفور نے عالمی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ وہ گزشتہ کئی ماہ سے صرف پانی اور روٹی پر گزارا کر رہے ہیں اور ان کا وزن 80 کلوگرام سے کم ہو کر 40 کلوگرام تک آ گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزا میں روزانہ کم از کم 600 امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے، لیکن اسرائیل صرف 95 ٹرک داخل ہونے دے رہا ہے اور روزانہ کی اوسط 85 ٹرکوں تک محدود ہو چکی ہے۔
غزا کی حکومتی میڈیا آفس نے الزام عائد کیا ہے کہ محدود امداد بھی لوٹ مار کا شکار ہو رہی ہے، جس کی وجہ اسرائیلی پالیسی کے تحت پیدا کی گئی بدامنی اور افراتفری ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے غزا پر مکمل فوجی قبضے کا اشارہ دیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے سیکیورٹی مشیروں سے ملاقات میں گزا پر مکمل کنٹرول کی تجاویز پر غور کیا ہے۔
اسرائیلی وزرائے دفاع اور اسٹریٹجک امور رواں ہفتے کابینہ میں اس حوالے سے باضابطہ سفارشات پیش کریں گے۔ اقوام متحدہ نے غزا پر ممکنہ مکمل قبضے کو “انتہائی تشویشناک اور خطرناک قدم” قرار دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی ٹینک وسطی گزا کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں، جب کہ مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ حملہ آگے بڑھا تو ان کے پاس سمندر میں چھلانگ لگانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔
ایک شہری ابو جہاد نے کہا کہ اگر ٹینک اس طرف بھی آگئے، تو کہاں جائیں؟ یہ ہماری بقیہ زندگی کے لیے موت کی سزا جیسا ہوگا۔
غزا وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 61 ہزار 20 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں کم از کم 18 ہزار 430 بچے شامل ہیں۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اب بھی 49 افراد حماس کے قبضے میں ہیں، جن میں 27 کے مارے جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔