انڈین حکام نے مقبوضہ کشمیر میں 25 کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے جنہیں حکومت نے ’’جھوٹے بیانیے‘‘ اور ’’علیحدگی پسندی‘‘ کو فروغ دینے والا قرار دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق اس اقدام کے تحت ان کتابوں کی فروخت یا ملکیت رکھنے والوں کو قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پابندی کی زد میں آنے والے مصنفین میں بُکر انعام یافتہ ناول نگار اور کارکن ارون دھتی رائے، آئینی ماہر اے جی نورانی اور مؤرخین سومنترہ بوس، کرسٹوفر اسنیڈن اور وکٹوریہ اسکو فیلڈ شامل ہیں۔
حکم نامہ منگل کو محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کیا گیا جو لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے براہِ راست کنٹرول میں ہے۔ حکم کے مطابق ان کتابوں کو انڈیا کے نئے فوجداری ضابطہ 2023 کے تحت ’’ضبط شدہ‘‘ قرار دیا گیا ہے، جس کے بعد ان کی اشاعت، خرید و فروخت اور ملکیت پر پابندی ہوگی۔

اس قانون میں ضبط شدہ مواد سے متعلق جرائم پر تین سال، سات سال یا تاحیات قید کی سزائیں دی جا سکتی ہیں، اگرچہ اب تک کسی کو اس تحت گرفتار نہیں کیا گیا۔ حکام کے مطابق یہ کتابیں نوجوانوں کو گمراہ کرنے، دہشت گردی کو جواز دینے اور ریاستِ انڈیا کے خلاف تشدد پر اکسانے میں کردار ادا کرتی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ’’تحقیقات اور مصدقہ انٹیلیجنس‘‘ کی بنیاد پر کیا گیا، جس سے پتا چلا کہ بعض کتابیں ’’تاریخی یا سیاسی تبصرے کے لبادے میں علیحدگی پسند بیانیہ‘‘ پھیلا رہی تھیں۔
حکم کے بعد پولیس نے سری نگر سمیت کئی مقامات پر بک اسٹورز، فٹ پاتھ کے بک اسٹالز اور دیگر اشاعتی مراکز پر چھاپے مارے تاکہ ممنوعہ کتب ضبط کی جا سکیں، تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کوئی کتاب برآمد ہوئی یا نہیں۔
سومنترہ بوس، جن کی کتاب ’’کشمیر ایٹ کراس روڈز‘‘ پر بھی پابندی لگائی گئی، نے اپنے کام پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد ہمیشہ امن کے راستے تلاش کرنا اور تنازع زدہ خطے میں پرامن مستقبل کی کوشش کرنا رہا ہے۔
کشمیر میں عسکریت پسند 1989 سے انڈین حکمرانی کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ بیشتر مقامی مسلمان یا تو پاکستان کے ساتھ الحاق یا مکمل آزادی کے حامی ہیں۔

انڈیا اس جدوجہد کو پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی قرار دیتا ہے، جب کہ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے اور اسے کشمیری عوام کی جائز تحریک کہتا ہے۔
2019 میں خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں اختلافِ رائے کو جرم قرار دینے کے اقدامات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے قبل بھی پولیس نے اسلامی تنظیموں سے منسلک کتب ضبط کی ہیں اور بعض تعلیمی مواد پر اعتراضات کیے گئے ہیں۔
کشمیری رہنما میر واعظ عمر فاروق نے اس پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسکالرز اور مؤرخین کی کتابوں پر پابندی سے نہ تاریخی حقائق مٹیں گے اور نہ عوام کی یادداشت۔ انہوں نے اسے جاری کتاب میلے کے ساتھ ایک تضاد قرار دیا، جس میں حکومت اپنی ’’ادبی وابستگی‘‘ کا اظہار کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی انڈیا سے بڑھتی دوریاں، کیا پاکستان خطے میں نئے تجارتی و سفارتی تعلقات کا مرکز بن سکتا ہے؟
انڈیا میں کتابوں پر پابندی شاذ و نادر ہی لگائی جاتی ہے، لیکن وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت پر آزاد میڈیا کو نشانہ بنانے، صحافیوں کو جیل میں ڈالنے اور نصاب میں تاریخی تبدیلیاں کرنے کے الزامات میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ سال ایک انڈین عدالت نے سلمان رشدی کے ناول ’’دی سیٹانک ورسز‘‘ پر دہائیوں پرانی پابندی ختم کر دی تھی کیونکہ اس پر کوئی باضابطہ حکم موجود نہیں تھا۔