اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کا غزہ پٹی پر مکمل فوجی کنٹرول کا منصوبہ فوری طور پر روکا جانا چاہیے کیونکہ یہ عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے کے منافی ہے جس میں اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ جلد از جلد قبضہ ختم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام دو ریاستی حل اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے راستے میں رکاوٹ ہے۔
آسٹریلیا نے بھی اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اس راستے پر نہ چلے کیونکہ اس سے غزہ میں انسانی بحران مزید بدتر ہوگا۔ وزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ جبری مستقل بے دخلی عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے اور ایک بار پھر جنگ بندی، امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی اور حماس سے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ مستقل امن کا واحد راستہ دو ریاستی حل ہے جس میں فلسطین اور اسرائیل کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ رہنا ہوگا۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے بھی کہا کہ غزہ سٹی پر فوجی کنٹرول کا اسرائیلی فیصلہ غلط ہے اور اس پر فوری نظر ثانی کی جانی چاہیے کیونکہ یہ اقدام تنازع کے خاتمے یا یرغمالیوں کی رہائی میں مددگار نہیں ہوگا بلکہ مزید خونریزی کا باعث بنے گا۔
آسٹریلیا نے تاحال فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا لیکن اسرائیل کے اقدامات پر تنقید میں اضافہ کر دیا ہے۔ وونگ کا بیان اس وقت سامنے آیا جب نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل پورے غزہ پر فوجی کنٹرول چاہتا ہے اور بعد میں اسے عرب افواج کے حوالے کرنا چاہتا ہے، تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کن عرب ممالک کو اس میں شامل کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: ملک کی معاشی ترقی کے لیے خواتین ہماری افرادی قوت کا حصہ ہیں، شہباز شریف
جمعہ کو سیکیورٹی کابینہ کے اجلاس کے بعد نیتن یاہو کے دفتر نے تصدیق کی کہ غزہ سٹی پر قبضے کا منصوبہ منظور کر لیا گیا ہے اور فوج کو کنٹرول سنبھالنے کی تیاری کرنے کا کہا گیا ہے، ساتھ ہی جنگی علاقوں سے باہر شہریوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کا بھی ذکر کیا گیا۔
ترک وزارت خارجہ نے بھی اسرائیلی فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بنیاد پرست نیتن یاہو حکومت کا یہ ہر قدم نسل کشی کو جاری رکھنے اور قبضہ بڑھانے کی کوشش ہے جو عالمی امن و سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہے۔