Follw Us on:

لوگوں کی یادداشت پر حملہ، کشمیر میں کتابوں پر پابندی عائد

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Book
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حفیظہ کانجوال کی کتاب کشمیر پر حال ہی میں پابندی عائد کی گئی ہے۔ (تصویر: یوٹیوب)

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حفیظہ کانجوال کی کتاب کشمیر پر حال ہی میں پابندی عائد کردی گئی۔ حکام نے 25 کتابوں پر پابندی عائد کی ہے، جنہیں معروف اسکالرز، مصنفین اور صحافیوں نے تحریر کیا تھا۔

 ان کتابوں میں کانجوال کی کتاب کشمیر کو نوآبادی بنانا: ریاستی تشکیل بھارتی قبضے کے تحت’ شامل ہے۔ مگر اس پابندی کے بعد جب کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر میں پولیس نے کئی کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مارے اور فہرست میں شامل کتابیں ضبط کیں تو اس کے ساتھ ہی انڈین حکام ایک کتاب میلے کا بھی انعقاد کر رہے تھے جو جھیل ڈل کے کنارے پر منعقد ہو رہا تھا۔

کانجوال نے خبر رساں ایجنسی الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پابندی سے کچھ بھی نیا نہیں ہے، جس لمحے میں کشمیر میں سن 2019 کے بعد سے سنسرشپ اور نگرانی کی سطح ایک عجیب مقام پر پہنچ چکی ہے، یہ بالکل اور بھی عجیب ہے۔

واضح رہے کہ یہ پابندی ایسے وقت میں لگائی گئی ہے، جب انڈین فوج ریاستی سطح پر چینار کتاب میلے کے ذریعے کتابوں کے مطالعے اور ادب کو فروغ دے رہی ہے۔

کشمیر میں طویل عرصے سے سنسرشپ کا سامنا ہونے کے باوجود، کتابوں پر یہ پابندیاں بہت سے نقادوں کے لیے ایک انتہائی جارحانہ قدم سمجھا جا رہا ہے، جس کے ذریعے نئی دہلی نے کشمیر کے تعلیمی حلقوں پر اپنے اثرات بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

Books
انڈین فوج ریاستی سطح پر چینار کتاب میلے کے ذریعے کتابوں کے مطالعے اور ادب کو فروغ دے رہی ہے۔ (تصویر: العربیہ)


حکومت کی جانب سے جن 25 کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ ہندوستان کی تقسیم اور کشمیر کے تنازعے کے پس منظر میں ہونے والے واقعات پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہیں۔

ان میں شامل کتابیں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں پیوتر بالسیرووچ اور اگنیئزسکا کوشیزوسکا، کشمیر کی آزادی کی جدوجہد محمد یوسف سراف، کشمیر کی سیاست اور ریفرنڈم ڈاکٹر عبدالجبار گوکھامی، کیا تمہیں کنن پوش پورہ یاد ہے؟ عصار بتول و دیگر، قید میں آزادی (کشمیر کی سرحدوں پر شناخت کی جدوجہد)  رادھیکا گپتا سمیت دیگر کتابیں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ کتابوں میں جیسے کانجوال کی صحافی انورادہ بھاسن کی ‘مسمار ریاست، آرٹیکل 370 کے بعد کشمیر کی غیر کہانی’ اور قانونی اسکالر اے جی نورانی کی ‘کشمیر کا تنازعہ 1947-2012’  شامل ہیں جو کشمیری خطے کی سیاسی تاریخ اور اس کے عالمی  پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔

مزید پڑھیں: ’کہیں گرمی اور کہیں بارش کے بعد ندی نالے بپھر گئے‘، آئندہ چند دنوں میں موسم کیسا رہے گا؟

حکومت کی جانب سے ان پابندیوں کی بنیادی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ان کتابوں میں کشمیریوں کے حقوق کی پامالی اور انڈین ریاست کے خلاف مواد شامل ہے جو کہ کشمیر میں امن و امان کو متاثر کر سکتا ہے اور نوجوانوں کو غلط راستے پر ڈال سکتا ہے۔

واضع رہے کہ حکومت نے اس پر ابھی تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے لیکن مقامی سطح پر کتابوں کی ضبطی اور چھاپے اب تک جاری ہیں۔

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس