باجوڑ امن جرگہ اور عسکری کمانڈروں کے درمیان افغانستان واپسی پر ہونے والے مذاکرات ہفتے کو تعطل کا شکار ہو گئے۔
اس وجہ سے لوئی ماموند تحصیل میں فوجی آپریشن سربکف دوبارہ شروع ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے۔ مقامی آبادی اس صورتحال سے پریشان ہے۔
ڈان اخبار کے مطابق ابتدائی طور پر دونوں فریقین نے مکمل تصفیے تک جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔
اس کے بعد انسداد دہشت گردی آپریشن مؤخر کر دیا گیا تھا۔ تاہم امن مذاکرات کی ناکامی نے علاقے میں خوف اور غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر دی۔
اطلاعات کے مطابق لوئی ماموند تحصیل کے 16 علاقوں سے کئی خاندان ہفتے کے روز محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو گئے۔ مزید خاندانوں کے بھی آج گھروں سے نکلنے کی توقع ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ عسکریت پسندوں کے انخلا پر مذاکرات ناکام ہونے کے بعد آپریشن دوبارہ شروع کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ مقصد علاقے سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ ہے، جو امن اور عوام کی جانوں کے لیے خطرہ ہیں۔
جرگہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کچھ مسائل کی وجہ سے رکے۔ جمعہ کی رات 50 رکنی جرگہ کے سربراہ صاحبزادہ ہارون رشید نے صحافیوں کو بتایا کہ بعض اہم معاملات پر سنگین ڈیڈ لاک پیدا ہوا۔ اس وجہ سے ساتواں دور بھی بغیر نتیجے کے ختم ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ جرگے نے دیانت داری سے کوشش کی کہ عسکریت پسندوں کو افغانستان پرامن طریقے سے واپس بھیجا جا سکے، لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔
یہ بھی پڑھیں: ’نوبیل انعام کی کوششیں یا حقیقی امن‘، ٹرمپ نے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امن معاہدہ کرا دیا، پاکستان کا خیر مقدم
انہوں نے واضح کیا کہ جب تک ڈیڈ لاک ختم نہیں ہوتا مزید بات چیت نہیں ہو گی۔ صاحبزادہ ہارون رشید، پی ٹی آئی کے مقامی ایم پی اے ڈاکٹر حمید الرحمٰن اور سابق ایم این اے گل ظفر خان سمیت تمام جرگہ اراکین نے دونوں فریقوں سے اپیل کی کہ برداشت کا مظاہرہ کریں اور لڑائی سے گریز کریں، کیونکہ اس سے عوام مشکلات میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں فریقوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ لڑائی کی صورت میں عام شہریوں اور ان کی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ جرگہ فعال رہے گا اور مقامی رہائشیوں کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بنائے گا تاکہ اگر تصادم ہو تو فوری اقدامات کیے جا سکیں۔
صاحبزادہ ہارون رشید نے کہا کہ جرگہ اراکین خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سے پشاور میں ملاقات کے بعد اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کریں گے۔ اس ملاقات کے بارے میں خبر کی اشاعت تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا۔