اتوار کی شب غزہ شہر کے الشفاء اسپتال کے دروازے کے باہر ایک خیمے پر اسرائیلی فضائی حملہ ہوا، جس میں الجزیرہ کے صحافی انس الشریف اور ان کے چار ساتھی شہید ہوگئے۔ شہید ہونے والوں میں محمد قریقہ، ابراہیم ظاہر، محمد نوفل اور موآمن علیوا شامل تھے۔
ایک مقامی آزاد صحافی محمد الخالدی بھی اس واقعے میں شہید ہوئے۔ یہ حملہ اس لیے بھی زیادہ تشویشناک سمجھا جا رہا ہے کیونکہ انس الشریف کو اس سے پہلے اسرائیلی فوج کی جانب سے دھمکیاں مل چکی تھیں۔
اسرائیلی فوج نے اس حملے کو ہدف بنا کر انجام دینے کا اعتراف کیا اور دعویٰ کیا کہ انس الشریف حماس کے ایک عسکری سیل کے سربراہ تھے اور راکٹ حملوں میں ملوث تھے، مگر عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ نے اس الزام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ من گھڑت دعوے ہیں۔ انس الشریف نے بھی اپنی زندگی میں ان الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔
الجزیرہ نے اپنے بیان میں کہا کہ انس الشریف اور ان کے ساتھی غزہ میں باقی رہ جانے والی چند آوازوں میں شامل تھے، جو دنیا کو وہاں کی المناک حقیقت پہنچا رہے تھے۔
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے اس عمل کی سخت مذمت کی اور کہا کہ صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا ان جرائم کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا، جب صحافیوں کے خلاف اسرائیلی حکمت عملی مزید سخت ہو چکی ہے۔ واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کی رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں اب تک 232 صحافی مارے جا چکے ہیں، جو کسی بھی تنازع میں اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

فلسطینی صحافیوں کی یونین کے مطابق صرف 2025 کے آغاز میں ہی 15 فلسطینی صحافی ہلاک ہوئے، جب کہ 2023 سے اب تک کل تعداد 212 تک پہنچ چکی ہے۔
اسی عرصے میں 343 خلاف ورزیاں درج کی گئی ہیں جن میں صحافیوں کی ہلاکت، گرفتاری اور جائیداد کی تباہی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ میں اظہارِ رائے کی آزادی سے متعلق خصوصی رپورٹرس آئرین خان نے کہا کہ آن لائن حملے اور بے بنیاد الزامات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ فلسطینی صحافیوں کو خاموش کرنے کی ایک منظم کوشش جاری ہے۔
یو این رپورٹرس آئرین خان کے مطابق یہ دھمکیاں اور الزامات واضح کرتے ہیں کہ غزہ میں صحافیوں کی آواز دبانے کی سازش کی جا رہی ہے تاکہ عالمی سطح پر احتساب روکا جا سکے۔
مزید پڑھیں: وقت آ گیا ہے کہ دنیا فلسطینی عوام کو ان کا بنیادی حق دلانے میں عملی کردار ادا کرے، پاکستان
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ نے کہا کہ صحافیوں کو عسکریت پسند قرار دینا انتہائی خطرناک عمل ہے کیونکہ یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر آپ جنگ کی حقیقت دنیا تک پہنچائیں گے تو آپ کی جان خطرے میں ہے۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صحافیوں کی یونین کے رہنما احد مرزا نے کہا کہ یہ ایک دانستہ مہم ہے، صحافیوں کو خوفزدہ کرنے اور چپ کروانے کی پاداش میں عالمی برادری کو اقدامات اٹھانے چاہیں اور اب خاموش نہیں رہنا چاہیے۔
اسی دوران ایک اور اہم پیش رفت سامنے آئی ہے کہ اسرائیل اور وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ منظور کر لیا ہے۔ اسرائیلی کابینہ کی منظوری کے بعد اس منصوبے پر عمل درآمد کی تیاریاں جاری ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ غزہ میں جاری انسانی بحران کو مزید سنگین بنا دے گا۔

مبصرین کے مطابق صحافیوں کو نشانہ بنانے اور زمینی حقائق کو چھپانے کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس قبضے کے خلاف عالمی ردعمل کو کمزور کیا جائے۔
بہت سے مبصرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر صحافیوں کو ختم کر رہا ہے تاکہ غزہ میں جاری قتل و غارت اور معصوم شہریوں، خصوصاً بچوں کی ہلاکتوں کو دنیا سے چھپایا جا سکے۔
جب میدان میں کوئی آزاد صحافی باقی نہیں رہے گا تو وہاں سے کوئی غیر جانبدار رپورٹنگ ممکن نہیں ہوگی اور اسرائیل کو موقع مل جائے گا کہ وہ اپنی مرضی کا بیانیہ دنیا کے سامنے پیش کرے، جب کہ اصل حقائق دب جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: انس جمال محمود الشریف: ’یہاں سے نکلا تو سیدھا جنت جاؤں گا‘
یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے، جس میں جنگی جرائم کی پردہ پوشی، عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور بین الاقوامی دباؤ سے بچنے کی کوشش بیک وقت کی جا رہی ہے۔
انس الشریف اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکت محض ایک سانحہ نہیں بلکہ یہ جنگ کے حقائق کو چھپانے کی ایک منظم کوشش کی علامت ہے۔ اس کے نتیجے میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر حقائق کی ترسیل مزید مشکل ہو رہی ہے۔ غزہ میں باقی رہ جانے والی چند آزاد صحافتی آوازیں بھی اب خطرے میں ہیں اور عالمی برادری کی خاموشی اس صورتحال کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔