امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرینی صدر وولودومیر زیلنسکی اگر چاہیں تو روس کے ساتھ جنگ کو فوراً ختم کر سکتے ہیں، مگر اس ممکنہ امن معاہدے کے تحت یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے کہا ہے کہ یاد رکھیں یہ سب کیسے شروع ہوا۔ اوباما کے دور میں کریمیا بغیر ایک گولی چلائے روس کو دے دیا گیا اور اب یوکرین کا نیٹو میں جانا ممکن نہیں۔ کچھ چیزیں کبھی نہیں بدلتیں۔
ٹرمپ کی یہ بیان بازی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب وہ وائٹ ہاؤس میں یوکرینی صدر کی میزبانی کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر لکھا کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی روس کے ساتھ جنگ تقریباً فوراً ختم کر سکتے ہیں اگر وہ چاہیں، یا پھر وہ لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ روس نے 2014 میں کریمیا کا غیر قانونی الحاق کیا تھا، جب کہ فروری 2022 میں یوکرین پر مکمل حملہ کیا۔
اس بیان سے چند گھنٹے قبل ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی الاسکا میں اہم ملاقات ہوئی، جس میں امریکی صدر نے سیزفائر کے بجائے مستقل امن معاہدے پر زور دیا۔
امریکا پہنچنے کے بعد صدر زیلنسکی نے ایک مرتبہ پھر اتحادی ممالک سے مؤثر سیکیورٹی ضمانتوں کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ ہم سب اس جنگ کو جلد اور پائیدار طریقے سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔

زیلنسکی نے 1994 میں دی گئی سیکیورٹی ضمانتوں کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ کریمیہ کو کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا، جیسے ہم نے 2022 کے بعد کیئو، اوڈیسا یا خارکیف کو نہیں چھوڑا۔
امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے انکشاف کیا کہ پیوٹن نے یوکرین کے لیے نیٹو طرز کی سیکیورٹی ضمانتوں پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا ایک ایسا معاہدہ لانے میں کامیاب ہوا ہے جو آرٹیکل 5 جیسی سیکیورٹی فراہم کرے گا۔
دوسری جانب یوکرینی آئین کے مطابق کسی بھی علاقے سے دستبرداری ممکن نہیں۔ زیلنسکی نے زور دیا کہ ایسے معاملات صرف یوکرین، روس اور امریکا کے درمیان سہ فریقی سربراہی اجلاس میں ہی زیر بحث آ سکتے ہیں۔
پیر کو ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے لیے نیٹو سیکریٹری جنرل مارک روٹے، یوکے کے وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر، فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون، اٹلی کی وزیراعظم جورجیا میلونی، جرمن چانسلر فریڈرک مرز، فن لینڈ کے صدر الیگزینڈر سٹب اور یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیئن واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کہاکہ وائٹ ہاؤس میں کل بڑا دن ہے۔ اتنے زیادہ یورپی رہنما ایک ساتھ کبھی نہیں آئے۔ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
یورپی سفارتی ذرائع کے مطابق خدشہ ہے کہ ٹرمپ، زیلنسکی پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ روس کے ساتھ معاہدہ کر لیں، خاص طور پر اس لیے کہ زیلنسکی کو حالیہ ٹرمپ-پیوٹن ملاقات سے باہر رکھا گیا تھا۔

دھیان رہے کہ فروری میں ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان وائٹ ہاؤس میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا، جس میں ٹرمپ نے یوکرینی صدر پر “تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیلنے” کا الزام لگایا تھا۔ تب سے یورپی رہنما دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جولائی میں زیلنسکی نے ٹرمپ کے ساتھ فون کال کو “اب تک کی سب سے اچھی گفتگو” قرار دیا تھا۔
دوسری طرف روسی فوج اب بھی یوکرین کے میدانوں میں پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے اور 2022 سے اب تک یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر قبضہ کر چکی ہے۔
امید کی جا رہی ہے کہ پیر کے دن وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقاتیں یورپ کی حالیہ تاریخ کی سب سے خطرناک جنگ کو ختم کرنے کی سمت کوئی ٹھوس پیش رفت لا سکتی ہیں۔