افراتفری اور نفسا نفسی کے عالم میں الخدمت کے رضا کارنے اپنی جان قربان کرکے کئی جانوں کو بچالیا، ضلع بونیر کا ظہور رحمان پیشے کے لحاظ سے استاد تھا مگر کام ریسیکیو فورسز سے بھی بڑا کرگیا۔
ظہور رحمان کا تعلق اس غیر سرکاری ادارے سے تھا جو رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر لوگوں کی خدمت میں پیش پیش ہوتا ہے اور یہ ادارہ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے نام سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی غیر سرکاری فلاحی تنظیموں میں شامل الخدمت فاؤنڈیشن نہ صرف ملک بلکہ دنیا کے کئی خطوں میں اپنی خدمات کی بدولت ایک پہچان بن چکی ہے۔ یہ تنظیم ہر اس جگہ پہنچتی ہے، جہاں لوگ مصیبت کی گھڑی میں بے یار و مددگار ہوں۔
چاہے شام کی خانہ جنگی سے متاثرہ پناہ گزین ہوں، فلسطین کے زخمی بچے ہوں، ترکیہ اور شام کے زلزلہ زدگان ہوں یا پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب، الخدمت فاؤنڈیشن نے ہر موقع پر انسانی ہمدردی کی مثال قائم کی ہے۔
حالیہ دنوں پاکستان کےشمالی علاقہ جات خصوصاً خیبرپختونخوا کے علاقے بونیر میں کلاؤڈ برسٹ کے سبب ہونے والی تباہی نے پوری دنیا کی نظریں اپنی طرف متوجہ کیں۔ بڑی تعداد میں امدادی تنظیمیں لوگوں کی مدد کرنے پہنچیں، جن میں سب آگے الخدمت تھی، جس کے رضا کار ایک ایسے لمحے میں جب زندگی اور موت کے بیچ صرف چند منٹوں کا فاصلہ رہ جاتا ہے، بنا کسی خوف کے لوگوں کی مدد کرنے میں مصروف ہوگئے ۔

ضلع بنیر کے نواحی علاقے پیر بابا کے قریب واقع بشنوئی گاؤں قدرتی حسن اور سادگی کے باعث ایک پر سکون بستی تھی۔ لیکن اسی گاؤں کے قریب جب کلاؤڈ برسٹ ہوا تو چند ہی لمحوں میں خوشنما وادیاں ملبے کے ڈھیر اور موت کے مناظر میں بدل گئیں۔
پہاڑوں سے پانی کا ایک زبردست ریلا اتر آیا، جس نے گاؤں کے آدھے حصے کو بہا دیا۔ کھیت، بازار، مکانات سب کچھ پانی اور مٹی میں دفن ہوگئے۔
پاکستان میٹرز کی ٹیم جب بشنوئی میں ہونے والی تباہی اور وہاں کے حالات جاننے کے لیے پہنچی تو وہاں پر ایک ہیرو کا نام گونج رہا تھا، جو کہ اور کوئی نہیں الخدمت فاؤنڈیشن کا رضاکار ظہور رحمان تھا، جس نے اپنی جان کی فکر کیے بغیر انسانی جانیں بچانے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
صدر الخدمت فاؤنڈیشن خیبرپختونخوا شمالی فضل محمود نے ’پاکستان میٹرز‘ کی ٹیم کو بتایا کہ ظہور احمد بنیادی طور پر ایک استاد جماعت اسلامی یوتھ کے تحصیل ذمہ دار کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں کھیل خصوصاً کرکٹ کے حوالے سے بھی نہایت مقبول تھے۔
انہوں نے کہا کہ سیلابی ریلے کے آغاز پر ظہور رحمان نے فوری طور پر اپنے خاندان کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ لیکن ان کی ذمہ داری صرف اپنے گھر تک محدود نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ درجنوں خاندان مدد کے منتظر ہیں۔
اسی جذبے کے تحت وہ گلی گلی دوڑتے، چیختے چلاتے لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف لے جاتے رہے۔ کئی بچوں اور خواتین کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بچایا۔

فضل محمود بتاتے ہیں کہ جب وہ ایک اور خاندان کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے تو اچانک ایک شدید ریلا آیا اور وہ خود اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ یوں یہ معلم اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے درجنوں زندگیاں بچانے والے شہیدِ انسانیت بن گئے۔ ان کی شہادت نے نہ صرف بشنوئی گاؤں بلکہ پورے خطے کو غمگین کر دیا ہے۔
پاکستان میٹرز کی ٹیم سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سرپرست الخدمت فاونڈیشن خیبر پختونخواہ شمالی محمد حلیم باچا نے بتایا کہ ظہور رحمان کا تعلق ایک معزز اور دینی گھرانے سے تھا، جسے علاقے میں “صاحبزادہ فیملی” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
محمد حلیم باچا نے بتایا کہ پورے علاقے میں بیس سے پچیس کلومیٹر تک ملبہ بکھرا پڑا ہے۔ مکانات اور دکانوں کے اوپر پانچ سے چھ فٹ موٹا ملبہ جما ہوا ہے، جس کے نیچے ابھی بھی کئی لاشیں دبی ہوئی ہیں۔
دریاؤں میں بھی ریت اور گارا بھر جانے سے پانی کا بہاؤ رکاوٹ کا شکار ہے۔ جب تک بھاری مشینری مہیا نہیں کی جاتی اور باقاعدہ کھدائی کا عمل شروع نہیں ہوتا، تمام لاشوں کو نکالنا ممکن نہیں ہوگا۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ حادثے کی خبر ملتے ہی الخدمت فاؤنڈیشن کے مقامی رضاکار حرکت میں آگئے تھے۔ قریبی علاقوں کے لوگ پیدل اور پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے گاؤں پہنچے کیونکہ مرکزی راستے تباہ ہوچکے تھے۔
فضل محمود بتاتے ہیں کہ سیلاب کے فوراً بعد وبائی امراض کا خدشہ بڑھ گیا تھا۔ الخدمت نے موبائل ہیلتھ یونٹس اور میڈیکل کیمپس قائم کیے، جہاں درجنوں مریضوں کا مفت علاج کیا گیا۔ حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے خصوصی سہولیات فراہم کی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پکا پکایا کھانا، صاف پانی اور ادویات متاثرین تک پہنچائی گئیں۔

سیلابی ریلے نے نہ صرف گھروں کو زمین بوس کیا بلکہ مارکیٹوں اور دکانوں کو بھی ملبے تلے دبا دیا۔ الخدمت کے رضاکار مسلسل بیلچے، مشینری اور ٹریکٹروں کے ذریعے ملبہ صاف کرنے میں مصروف تھے اور تاحال مصروف ہیں۔
ان کا مقصد یہ ہے کہ جو گھر یا دکانیں کچھ حد تک قابلِ استعمال ہیں انہیں دوبارہ آباد کیا جا سکے تاکہ لوگ اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کر سکیں۔
اس سانحے میں اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً دو سو سے زائد افراد جاں بحق یا لاپتہ ہوئے، جب کہ ایک سو پچاسی سے زائد لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ کئی خاندان ایسے ہیں جن کے دس سے پندرہ افراد اس حادثے میں شہید ہوگئے۔ بعض گھروں میں چھبیس یا ستائیس افراد تک ایک ساتھ لقمہ اجل بن گئے۔ یہ مناظر ناقابلِ بیان ہیں۔
سرپرست الخدمت فاؤنڈیشن حلیم باچا بتاتے ہیں کہ اس دوران کئی المناک واقعات پیش آئے۔ بٹے ویلیج کونسل کی حدود میں ایک شادی کی تقریب تھی۔ اہلِ خانہ اور رشتے دار بڑی تعداد میں اکٹھے ہوئے تھے کہ اچانک بارش اور بجلی گرنے کے بعد سیلابی ریلا ان کے گھروں پر ٹوٹ پڑا۔
اس حادثے میں ایک ہی خاندان کے اٹھائیس افراد شہید ہوگئے۔ صرف سلیمان نامی ایک شخص، جوکہ اسکول ٹیچر اور جماعت اسلامی کے رکن تھے، معجزانہ طور پر زندہ بچے۔ باقی پوری فیملی صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔
فضل محمود نے بتایا کہ اتنی کثیر تعداد میں لوگ شہید ہوئے کہ علاقے میں لوگوں کے لیے کفن کم پڑ گئے، الخدمت فاؤنڈیشن نے ہسپتالوں میں موجود لاشوں کے لیے کفن اور تدفین کا انتظام بھی کیا۔ خواتین رضاکاروں نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے شہید خواتین کو غسل دینے اور کفن پہنانے کا کام سر انجام دیا۔

سیلابی ریلے کے ساتھ صرف پانی ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے پتھر بھی پہاڑوں سے بہہ کر نیچے آئے۔ یہ پتھر اتنے بھاری اور زیادہ تعداد میں تھے کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے کہ یہ سب کہاں سے آگئے۔ گاؤں کی گلیاں، کھیت اور مکانات ان پتھروں سے بھر گئے۔ یہ منظر کسی قیامتِ صغریٰ سے کم نہ تھا۔
ایسا نہیں کہ حکومتی ادارے اس سارے عمل میں کھوئے رہے،وہ بھی امدادی کاموں میں شریک تھے لیکن ان کی رفتار اور مشینری کی کمی نمایاں رہی۔ راستے بند تھے، موبائل سگنلز معطل تھے اور اداروں کے درمیان مربوط رابطہ نہ ہونے کے باعث امدادی کاموں میں تسلسل قائم نہ رہ سکا۔
حلیم باچا بتاتے ہیں کہ بازاروں کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی۔ اندازہ لگایا گیا کہ صرف پیر بابا اور پیروہ بازار میں ایک ہزار سے زیادہ دکانیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ ہر دکان میں لاکھوں روپے کا سامان موجود تھا، بعض میں تو سرمایہ کروڑوں میں تھا۔
اس طرح صرف دکانوں کے نقصانات اربوں روپے تک پہنچ گئے۔ گھروں کے اندر پانی اور کیچڑ بھر گیا، جس سے فرنیچر، بستر، برتن، کھانے پینے کا سامان اور حتیٰ کہ زیورات تک برباد ہوگئے۔ کئی مکانات ایسے تھے، جنہیں صاف کرنے کے لیے بیلڈوزر اور ہیوی مشینری کی ضرورت تھی۔
پاکستان میٹرز ٹیم کو انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے حکومتی اداروں کی کارکردگی متاثر کن ثابت نہ ہوسکی۔ کئی دن گزرنے کے باوجود بجلی بحال نہ ہوئی، جس کی وجہ سے لوگوں کو اندھیروں میں رہنا پڑا اور ٹیلی فون نیٹ ورک بھی معطل رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اموات اور نقصانات کی صحیح تعداد کا تعین مشکل ہوگیا۔ کئی لاشیں دکانوں اور مکانات کے کیچڑ سے بعد میں برآمد ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں الخدمت فاؤنڈیشن اور جماعت اسلامی نے سروے شروع کیا تاکہ درست اعداد و شمار جمع کیے جائیں اور متاثرین کو مناسب امداد فراہم کی جاسکے۔ ان کے منصوبوں میں نہ صرف فوری امداد بلکہ طویل المدتی بحالی جیسے گھروں کی تعمیر نو اور مالی تعاون بھی شامل ہیں۔
حلیم باچا نے مطالبہ کیا ہے کہ ظہور رحمان کی قربانی نوجوانوں کے لیے مثال ہے اور مقامی لوگوں کی خواہش ہے کہ حکومت انہیں سرکاری طور پر تمغۂ امتیاز یا تمغۂ جرات سے نوازے تاکہ ان کے اہلِ خانہ کی دلجوئی ہو اور ان کی قربانی کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جائے۔
مقامی افراد کی اپیل ہے کہ حکومت فوری طور پر بڑے پیمانے پر ریسکیو اور ریلیف آپریشن شروع کرے۔ یہ صرف ایک انسانی فریضہ نہیں بلکہ ایک قومی ضرورت ہے۔
ظہور رحمان جیسے نوجوانوں کی قربانی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ مشکل وقت میں انسانیت کے لیے آگے بڑھنا ہی سب سے بڑی خدمت ہے۔
ظہور رحمان کی کہانی قربانی، خدمت اور ایثار کی لازوال مثال ہے۔ ایک استاد ہونے کے ناطے انہوں نے صرف علم ہی نہیں بانٹا بلکہ اپنی جان دے کر یہ ثابت کیا کہ اصل تعلیم انسانیت کی خدمت ہے۔
ان کی شہادت نے الخدمت فاؤنڈیشن کے مشن کو مزید تقویت دی ہے۔ آج ان کا نام بونیر ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ایک ہیرو کے طور پر یاد کیا جا رہا ہے۔