امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا پر روس سے درآمدات کے سلسلے میں اضافی پچیس فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ تجارت یوکرین میں روس کی جنگ کو مزید ہوا دے رہی ہے۔
اس اقدام کے بعد جنوبی ایشیا کا یہ ملک اب تک کے سب سے زیادہ ٹیرف والے ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔
نئی دہلی اور ماسکو کے تعلقات سرد جنگ کے دور سے ہیں اور روس انڈیا کے دفاعی ساز و سامان کا بڑا ذریعہ ہے، مگر ٹرمپ کی ناراضی خاص طور پر انڈیا کی روس سے تیل کی بڑھتی ہوئی درآمدات پر مرکوز ہے۔
ٹرمپ نے 30 جولائی کو اپنے پلیٹ فارم “ٹرتھ سوشل” پر لکھا کہ انڈیا “روس کا سب سے بڑا توانائی خریدار ہے، چین کے ساتھ مل کر، ایسے وقت میں جب سب چاہتے ہیں کہ روس یوکرین میں قتل و غارت بند کرے – یہ سب کچھ درست نہیں!”
19 اگست کو امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے سی این بی سی کو بتایا کہ “انڈیا کے چند امیر ترین خاندان” ان درآمدات کے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔

روس کے خام تیل کا سب سے بڑا انڈیا ی خریدار ریلائنس انڈسٹریز (آر آئی ایل) ہے، جس کی سربراہی ایشیا کے سب سے امیر شخص مکیش امبانی کر رہے ہیں۔ 2021 میں آر آئی ایل کے جام نگر ریفائنری میں روسی خام تیل کل درآمدات کا صرف تین فیصد تھا۔ لیکن یوکرین جنگ کے بعد یہ 2025 میں اوسطاً پچاس فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
صرف 2025 کے ابتدائی سات مہینوں میں جام نگر ریفائنری نے روس سے 1 کروڑ 83 لاکھ ٹن خام تیل درآمد کیا، جو کہ سال بہ سال کے حساب سے 64 فیصد اضافہ ہے اور اس کی مالیت 8.7 ارب ڈالر ہے۔ یہ مقدار 2024 کی کل درآمدات سے صرف بارہ فیصد کم ہے۔
مزید پڑھیں: صدر، وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی چینی وزیرِ خارجہ سے ملاقات، ’سی پیک فیز ٹو‘ پر مکمل اطمینان کا اظہار
یورپی یونین اور روس کے تجزیہ کار ویبھو رگھونندن کے مطابق یہ تبدیلی روسی تیل پر عائد قیمت کی حد (پرائس کیپ) کی وجہ سے آئی۔
ان کا کہنا ہے کہ “قیمت کی حد کا مقصد روس کی آمدنی گھٹانا تھا اور ساتھ ہی عالمی سپلائی برقرار رکھنا بھی۔” مگر اس پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے اور 60 ڈالر فی بیرل کی جمی ہوئی حد نے اس کے اثرات کو کمزور کر دیا ہے۔
روس نے “شیڈو فلیٹ” کے ذریعے اس نظام کو ناکام بنایا، یعنی سیکڑوں ایسے جہاز جو قیمتوں کی نگرانی سے بچ کر زیادہ نرخوں پر تیل پہنچاتے ہیں۔

کریا کے ڈیٹا کے مطابق جام نگر ریفائنری نے فروری 2023 سے اب تک 85.9 ارب ڈالر کے مصنوعات دنیا بھر کو برآمد کی ہیں، جن میں سے 36 ارب ڈالر (42 فیصد) ان ممالک کو گئے جو روس پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔
ان میں یورپی یونین کو 17 ارب یورو اور امریکا کو 6.3 ارب ڈالر مالیت کے مصنوعات شامل ہیں، جن میں اندازاً 2.3 ارب ڈالر روسی خام تیل سے پروسیس ہوئے تھے۔
امریکا انفرادی ملکوں میں چوتھا بڑا خریدار ہے، مگر مقدار کے لحاظ سے سب سے زیادہ مصنوعات اسی نے لی ہیں۔ صرف 2025 میں امریکا نے جام نگر سے 1.4 ارب ڈالر کے مصنوعات درآمد کیے، جو کہ پچھلے سال سے 14 فیصد زیادہ ہیں۔
ریلائنس کے بعد نایارا انرجی بھی روسی تیل کی بڑی خریدار ہے، جس کے ودینار ریفائنری کی درآمدات میں 66 فیصد روسی تیل شامل ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ انڈیا صرف ایک کمپنی کے فائدے کے لیے امریکی ٹیرف کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ سستے روسی تیل نے انڈیا کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے میں مدد دی اور حکومت کو غیرجانبداری کا پیغام دینے کا موقع ملا۔
دہلی کے ماہر تجارت اجے سریواستو کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے انڈیا ی تیل پر ٹیرف “ایک ڈرامہ” ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “انہوں نے چین، جو سب سے بڑا خریدار ہے، اس پر کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ اس سے ڈرتے ہیں۔ کل کو اگر ٹرمپ اور پوتن کے درمیان کوئی معاہدہ ہوجاتا ہے تو امریکا انڈیا پر کسی اور وجہ سے ٹیرف لگا دے گا۔”
کریا کے مطابق امریکی درآمدات میں شامل ایندھن کے اجزاء، جیٹ فیول اور پٹرول کا کچھ حصہ روسی خام تیل سے پروسیس ہوا ہے۔
یورپی یونین نے روسی خام تیل سے بنی مصنوعات پر جنوری سے پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جسے ماہرین ایک بڑی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ اگر اس پر سختی سے عمل درآمد ہوا تو ریلائنس کے لیے یورپی مارکیٹ کا نقصان بڑا دھچکا ہوگا۔
اگرچہ ریلائنس نے دسمبر میں روسی کمپنی روزنیفٹ کے ساتھ دس سالہ معاہدہ بھی کیا ہے، مگر یہ واضح نہیں کہ نئی پابندیوں کی صورت میں اس معاہدے کا کیا ہوگا۔