الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون میں حالیہ ترمیم پاکستان میں بنیادی آئینی حقوق اور صحافتی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ حکومت نے اس بل کو بغیر کسی متعلقہ فریقین سے مشاورت کےعجلت میں منظور کیا، جس سے صحافت اور آزادی اظہار پر سنگین خدشات پیدا ہو چکے ہیں۔
ڈیجیٹل میڈیا الائنس برائے پاکستان کے صدرسبوخ سید نے اپنے ایک بیان میں ترامیم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “یہ ترامیم پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے لیے مزید مشکلات پیدا کریں گی، جو پہلے ہی سخت قوانین کے تحت مشکلات کا شکار ہیں ،یہ امر تشویشناک ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بغیر اس کے طویل مدتی نتائج کو مکمل طور پر سمجھے ، اس مسئلے پر ایک ہی صفحے پر نظر آتی ہیں،۔
انہوں نے کہا کہ “پاکستان کا میڈیا پہلے ہی شدید دباؤ کا سامنا کر رہا ہے، اور قوانین کو مزید سخت کرنے سے صرف آزاد صحافت کو خاموش کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم اس ترمیم کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے اہم فیصلے کرنے سے قبل میڈیا نمائندوں کے ساتھ بامعنی بات چیت کریں۔
ڈیجیٹل میڈیا الائنس برائے پاکستان صحافتی آزادی کے دفاع میں ثابت قدم ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جمہوریت اور آزادی اظہار کے مفاد میں اس ترمیم پر نظرثانی کرے۔”
گزشتہ روز صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیکا ایکٹ کے ترمیمی بل پر دستحط کیے جس کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل قانون کا حصہ بن گیا۔
یاد رہے کہ قومی اسملبی میں یہ بل 23 جنوری کو پیش کیا گیا۔ جس کے دوران صحافیوں نے کاروائی سے بھی واک آؤٹ کیا تھا۔

اسلام آباد میں صحافیوں کی تنظیم پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے بدھ کو دعویٰ کیا تھا کہ صدر آصف زرداری نے پیکا ایکٹ پر دستخط نہ کرنے کی ان کی درخواست قبول کر لی تاہم اسی روز ایوان صدر سے جاری بیان میں بتایا گیا صدر نے پیکا ایکٹ پر دستخط کر دیے ہیں۔
صحافتی تنظیموں اور جماعت اسلامی نے پیکا ترامیم کو ‘آزادی اظہار کے منافی’ قرار دے کر اس مخالفت کی ہے۔
پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے قانون سازی کے دوران ہر مرحلے پر بل کی حمایت کی جب کہ ماضی میں پیکا قوانین نافذ کرنے اور اسے مزید سخت کرنے سے متعلق عمران خان کے بیان کے برعکس پی ٹی آئی نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔
پیکا ایکٹ کے تحت غیر قانونی مواد یا فیک نیوز پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکے گا۔ پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے نئی تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔
ایسا مواد جو اسلام مخالف، قومی سلامتی یا ملکی دفاع کے خلاف، توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہو، غیر اخلاقی مواد، مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی سمیت 16 اقسام کے مواد کو غیر قانونی مواد قرار دیا گیا ہے۔

ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا بھی شامل ہوں گے۔بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔
حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجنیئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہوگا۔