Follw Us on:

گلگت بلتستان میں کس طرح چرواہے نے درجنوں جانیں بچائیں: ’اصل فیلڈ مارشل تو یہی ہے جو نوبل پرائز کا حقدار ہے‘

مادھو لعل
مادھو لعل
Wasiyat khan
وصیت خان اپنے پانچ سو مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں پر موسم گزار رہے تھے۔ (فوٹو: بی بی سی اردو)

گلگت بلتستان کے ضلع غذر کا روشن علاقہ، جہاں برف پوش پہاڑ اور گلیشیئرز سال بھر سفید چادر اوڑھے رہتے ہیں، اس سال موسم گرما کے آغاز پر ایک خوفناک قدرتی آفت کی زد میں آیا۔ لیکن یہاں کے رہائشی وصیت خان اور ان کے رشتہ داروں کی ہوشیاری نے نہ صرف اپنی جانیں بچائیں بلکہ پورے علاقے کو ایک بڑی تباہی سے محفوظ کر دیا۔

عالمی خبررساں ادارے بی بی سی اردو کے مطابق 21 اگست کی شام وصیت خان اپنے پانچ سو مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں پر موسم گزار رہے تھے۔ موسم تو بالکل خوشگوار تھا، مگر اگلی صبح ایک گرجدار آواز نے ان کی نیند توڑ دی۔ ایک گلیشیئر پھٹ گیا تھا اور اس کے نتیجے میں تیزی سے ملبہ اور برف کا سیلاب نالے کے ذریعے نیچے گاؤں کی طرف بڑھ رہا تھا۔

وصیت خان نے فوراً اپنے ساتھیوں کو خبردار کیا، خواتین اور بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا اور خود موبائل سگنلز کی تلاش میں پہاڑ کی جانب دوڑ لگائی تاکہ فوری وارننگ دی جا سکے۔ ان کی ہمت اور ہوشیاری نے تالی داس کے تقریباً 200 گھروں کو بروقت خالی کروا دیا۔

وصیت خان عالمی خبررساں ادارے کو بتاتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو فون کیا اور کہا کہ فوراً علاقے کو خالی کر لو، سیلاب گاؤں تک پہنچنے والا ہے۔ ان کی کال پر نہ صرف ان کے رشتہ دار بلکہ آس پاس کے کئی لوگ نیند سے جاگ گئے، مساجد اور جماعت خانوں میں اعلانات کیے گئے اور لوگ اپنی جان بچانے کے لیے حرکت میں آئے۔

گلگت بلتستان حکومت نے بھی ان کی فوری اطلاع کو سراہتے ہوئے پولیس کی جانب سے انعام کا اعلان کیا۔ کہا گیا کہ یہاں کا خراب وارننگ سسٹم برسوں سے کام نہیں کر رہا تھا، لیکن وصیت خان اور ان کے ساتھیوں کی چالاکی نے اس خامی کو پورا کر دیا۔

Wasiyat khan appreciation
اپنے والد کو فون کیا اور کہا کہ فوراً علاقے کو خالی کر لو۔ (فوٹو: بی بی سی اردو)

کمیونٹی رہنما شریف اللہ نے بتایا کہ سیلابی پانی نے گاؤں کے کئی حصے تباہ کر دیے، لیکن نوجوانوں کی جرات مندی نے پانی میں پھنسے لوگوں کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہم نے فوجی ہیلی کاپٹر کی مدد سے ریسکیو آپریشن کیا اور تمام افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی گرمی نے گلیشیئرز کو تیزی سے پگھلنے پر مجبور کر دیا ہے، جس سے نہ صرف پانی بلکہ ملبہ اور بڑے پتھر بھی سیلاب کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عدنان طاہر نے خبردار کیا کہ اگر ارلی وارننگ سسٹم کو مؤثر طریقے سے نہ چلایا گیا تو یہ خطہ مستقبل میں مزید شدید آفات کا شکار ہو سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر صارفین نے وصیت خان کی اس بہادری اور حکومت کی جانب سے دیے گئے انعام پر دلچسپ تبصرے کیے اور اس اقدام کو خواب سراہا۔ فیسبک پر ایک صارف نے پی ٹی اے کو تنقید کا نشانے بناتے ہوئے کہا کہ مطلب موبائل سروس کتنی ضروری ہے، یہ بات کوئی پی ٹی اے چیئرمین کو بتائے۔

ایک اور صارف نے طنزیہ انداز اپناتے ہوئے لکھا کہ اس کو دس ہزار روپے کا انعام دیاگیا ہے، میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ یہ اتنی بڑی رقم کا کیا کرے گا؟

مزید پڑھیں: انڈیا سے بات چیت کے لیے بھیک مانگنے کا وقت گزر گیا اور اب بات برابری کی بنیاد پر ہوگی، محسن نقوی

زکریا زاہد نامی ایک صارف نے لکھا کہ اصل نوبل پرائز کا حقدار تو یہی جوان ہے، اصل فیلڈ مارشل تو یہی ہے، جس نے عملاً میدان فتح کرکے محافظ ہونے کا ثبوت دیاہے۔

سید وقار نامی صارف نے کہا طنز کرتے ہوئے کہا ہے  کہ وصیت خان جو انعامی رقم ملی ہے، وہ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں رکھوانی پڑے گی کیونکہ پاکستانی بینکوں نے اس رقم کا بوجھ اٹھانے سے صاف انکار کر دیا ہے۔

راحیل خان نامی صارف نے ریاستِ پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کو ریاست پاکستان نے پورے دس ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے، جس سے اس نوجوان چرواہے کے زندگی اور اس کی اگلی دس نسلیں آرام سے بیٹھ کر پرسکون زندگی گزاریں گی۔

Social reactions
اصل نوبل پرائز کا حقدار تو یہی جوان ہے۔ (فوٹو: فیسبک)

یہ کہانی صرف قدرتی آفت کی نہیں بلکہ انسان کی ہوشیاری، بہادری اور کمیونٹی کی یکجہتی کی بھی ہے۔ وصیت خان جیسے بہادر لوگوں کی موجودگی نے یہ واضح کر دیا کہ چاہے قدرت کتنی بھی سخت آزمائش لے کر آئے، انسان کی سمجھداری اور بروقت ایکشن اسے بڑے نقصان سے بچا سکتی ہے۔

گلگت بلتستان کی یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ معاشرتی شعور اور تعاون کی بھی اشد ضرورت ہے۔ بصیرت اور بروقت اطلاع ہی آج کے دور میں سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس