ڈپٹی وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے 23 اور 24 اگست کو بنگلہ دیش کا دو روزہ سرکاری دورہ کیا، جو تقریباً 13 برس بعد کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا ڈھاکا کا پہلا دورہ تھا۔
وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ڈھاکا میں اسحاق ڈار نے بنگلہ دیش کے امورِ خارجہ کے مشیر ایم ڈی توحید حسین سے مذاکرات کیے اور چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے بھی ملاقات کی۔
اس کے علاوہ انہوں نے کامرس ایڈوائزر شیخ بشیر الدین اور اعلیٰ بنگلہ دیشی حکام سے بھی اہم ملاقاتیں کیں۔ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی، جماعتِ اسلامی اور نیشنل سٹیزن پارٹی کے وفود نے بھی ڈپٹی وزیراعظم و وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔
دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان متعدد معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط ہوئے، جن میں سفارتی و سرکاری پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے ویزا ختم کرنے کا معاہدہ، تجارت کے فروغ کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ کا قیام، اسٹریٹجک اسٹڈیز اداروں کے درمیان تعاون، فارن سروس اکیڈمیز کا اشتراک، سرکاری خبر رساں اداروں کے درمیان مفاہمت اور ثقافتی تبادلے کا پروگرام شامل ہے۔
نائب وزیراعظم نے “پاکستان-بنگلہ دیش نالج کوریڈور” کے قیام کا اعلان بھی کیا، جس کے تحت آئندہ پانچ برسوں میں 500 بنگلہ دیشی طلبہ کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیے جائیں گے، جب کہ 100 سول سرونٹس کے لیے تربیتی کورسز کا بھی اہتمام ہوگا۔
مزید یہ کہ بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے پاکستان ٹیکنیکل اسسٹنسم پروگرام کے تحت وظائف کی تعداد پانچ سے بڑھا کر 25 کردی گئی۔
مذاکرات میں تجارت، معیشت، تعلیم، ثقافت، کھیل اور عوامی رابطوں کے فروغ سمیت تمام پہلوؤں پر بات چیت ہوئی، جب کہ خطے کی صورتحال بالخصوص غزہ کی انسانی المیے، روہنگیا مسئلے اور سارک کو دوبارہ فعال بنانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اسحاق ڈار نے پروفیسر محمد یونس سے ملاقات میں پرانے تعلقات کی بحالی، نوجوانوں کے باہمی روابط، تجارت و سرمایہ کاری اور خطے میں تعاون کو بڑھانے پر زور دیا۔ انہوں نے بنگلہ دیشی عوام اور قیادت کی جانب سے شاندار میزبانی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستانی قیادت کے نیک جذبات بھی پہنچائے۔
وزیر خارجہ نے بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی چیئرپرسن بیگم خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کی عیادت کرتے ہوئے ان کی صحتیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
اس موقع پر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے اور دونوں ملکوں کے عوام کے باہمی مفاد کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔