اسرائیل میں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے افراد کے اہلخانہ اور ہزاروں دیگر شہری وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
تل ابیب میں جاری ایک بڑی ریلی میں مظاہرین نے ٹائر جلا کر سڑکیں بند کر دیں اور حکومت سے یرغمالیوں کی فوری بازیابی اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
احتجاج کے دوران حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے شخص متن زنگوکر کی والدہ، ایناو زنگوکر، نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران وزیر اعظم نیتن یاہو پر سخت تنقید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 690دنوں سے حکومت بغیر کسی واضح مقصد کے ایک جنگ لڑ رہی ہے۔ آج یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نیتن یاہو صرف عوامی دباؤ سے ڈرتے ہیں۔ ہم یہ جنگ ایک برس قبل ختم کر سکتے تھے اور تمام یرغمالیوں اور فوجی اہلکاروں کو گھر واپس لا سکتے تھے۔
ایناو زنگوکر نے مزید کہاکہ ہم ان یرغمالیوں اور فوجی اہلکاروں کو بچا سکتے تھے لیکن وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بار بار اپنے اقتدار کے لیے عام لوگوں کی قربانی دینے کا انتخاب کیا۔
احتجاج میں شامل 27 سالہ آدی نےعالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیل میں لوگوں کی “اکثریت” امن چاہتی ہے اور ان کا ماننا ہے کہ جنگ بندی سے اس کی شروعات ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق احتجاج کرنے والے شہریوں کا ماننا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں جنگ کو درست طریقے سے ہینڈل نہیں کیا۔

احتجاج کے پس منظر میں اسرائیل کی حکومتی کابینہ کا آج ایک اہم اجلاس متوقع ہے، جس میں موجودہ صورتِ حال اور ممکنہ جنگ بندی کے امکانات پر بات چیت کی جائے گی۔
دوسری جانب خطے میں ثالث کاروں نے 60 دن کی جنگ بندی کا ایک پروپوزل پیش کیا تھا، تاہم اسرائیلی حکومت نے اس کو مسترد کر دیا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ صرف ایک جامع معاہدے پر رضامند ہوگی، جس کے تحت تمام یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے۔
غزہ میں اس وقت بھی شدید انسانی بحران جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہاں اب بھی 50 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 20 افراد کے زندہ ہونے کی اطلاع ہے۔ ادھر گزشتہ رات غزہ میں اسرائیلی شیلنگ کے باعث بڑی تعداد میں فلسطینیوں نے اپنا علاقہ چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔