Follw Us on:

پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ، ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بھی بڑھ گئے

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
پاکستان میں پولیو کے کیسز بڑھنے سے عالمی مہم کو سنگین چیلنج درپیش (دا واشنگٹن پوسٹ)

پاکستان میں پولیو کے کیسز ایک بار پھر بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ خطرہ ملک کے سب سے غیر مستحکم اور شورش زدہ علاقوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 2021 میں صرف ایک کیس رپورٹ ہونے کے بعد 2022 میں 73 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ پولیو کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان ایک بار پھر شکست کے دہانے پر کھڑا ہے۔

پاکستان کے صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سیاسی کشمکش اور دہشت گردی کی وجہ سے پولیو ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔

جیسا کہ 2024 میں بھی کئی ٹیموں اور ان کے محافظوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ یہ پولیو زدہ علاقے افغانستان کی سرحد سے ملتے ہیں جہاں پولیو کے کیسز بڑھ رہے ہیں اور یہاں عالمی پولیو مہم کو سب سے زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔

پاکستان میں پولیو کا پھیلاؤ، ویکسی نیشن ٹیموں کو مسلسل خطرات کا سامنا
(گوگل)

دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان کے درمیان گہرے تعلقات کے بعدٹی ٹی پی نے پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال پولیو ٹیموں پر 25 سے زائد حملے ہو چکے ہیں۔

ایک طرف جہاں ملک کی حکومت پولیو کے خلاف لڑنے والے ہیروز کو تحفظ دینے کی کوششیں کر رہی ہے وہیں دوسری طرف دہشت گردگروپ سمجھتے ہیں کہ یہ مہم کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد ان کی لڑائی کے خلاف جاسوسی کرنا ہے۔

نجی خبر رساں ادارے ‘دا واشنگٹن پوسٹ’ کے مطابق 2011 میں امریکی سی آئی اے نے اس مہم کو اس لیے بدنام کیا تھا کہ اس نے اسلحہ کی تلاش میں ایک جعلی ہیپاٹائٹس ویکسی نیشن مہم چلائی تھی۔

اس اقدام نے دہشت گردوں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ یہ ویکسی نیشن مہم ایک قسم کی جاسوسی ہے۔

پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کے کارکنان جنہیں روزانہ صرف 18 ڈالر ملتے ہیں ،وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کر رہے ہیں۔

دہشت گردی کی کارروائیوں اور پولیو ویکسی نیشن کے بحران میں عالمی حل کی ضرورت
(دا واشنگٹن پوسٹ)

دا واشنگٹن پوٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک علاقے میں 24 سالہ احمد بھٹانی نے اپنے جان کے خوف سے پولیو ویکسی نیشن کے کام سے استعفیٰ دے دیا۔

اس نوجوان نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی پولیس کی حفاظت میں ویکسین دینے جا رہے تھے جب ایک حملہ آور گروپ نے ایک پولیس افسر کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد اس کے لیے اپنے ہی گاؤں جانا بھی خطرے سے خالی نہیں رہا۔

احمد بھٹانی کا مزید کہنا تھا” کہ اب میں اپنے گاؤں بھی نہیں جا سکتا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ دہشت گرد مجھے مار ڈالیں گے”۔

ٹی ٹی پی کی نظر میں اگر ویکسی نیشن ٹیمیں پاکستانی فوج کی بجائے ان کے ساتھ تعاون کریں تو وہ ان کی مکمل حفاظت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

پولیو کے حوالے سے ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کو دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا تو ہے ہی اس کے  ساتھ ہی ساتھ پولیو ویکسین کی ترسیل میں درپیش مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سردی کی حالت میں ویکسین کی حفاظت میں نقائص اور ویکسین کی ناکافی فراہمی ان مسائل میں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ گاؤں دیہات میں صاف پانی کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ پولیو وائرس آلودہ پانی پینے سے پھیلتا ہے۔

پاکستان کے مشہور معالج ڈاکٹر نسیر رانا کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ صحت کے کارکنوں کے لیے بہتر مراعات فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ “یہ کارکنان قومی ہیروز ہیں جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر لوگوں کی زندگی بچا رہے ہیں، ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔”

پولیو ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے اور دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ
(گوگل)

پاکستان اور افغانستان میں پولیو کی وبا کا بڑھنا ایک عالمی بحران بن سکتا ہے۔اور اگر عالمی سطح پر اس مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا تو پولیو کا وائرس پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے۔

حالیہ برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو پولیو کے خلاف مہم کے لیے تقریباً 7 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی تھی لیکن اگر اس امداد میں کمی آئی تو یہ پاکستان اور افغانستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

پاکستان کے سابق پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے خبردار کیا ہے کہ “اگر پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے خلاف اس وقت کے اقدامات میں کمی آئی تو اس کے اثرات بہت سنگین ہو سکتے ہیں اور یہ نہ صرف ان دونوں ملکوں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جائے گا۔”

اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو نہ صرف بچے مفلوج ہو سکتے ہیں بلکہ یہ وائرس دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی پھیلنے کا خطرہ بن سکتا ہے۔

حکومت اور عالمی برادری کو اس بحران کا فوری اور مؤثر حل نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید بچوں کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس