پاکستان کے کھیت کھلیان ایک خاموش چیخ بن گئے ہیں، جہاں کسان جو کبھی فصلوں کے ہرے بھرے کھیت دیکھ کر زندگی کی آس لگاتے تھے، آج وہی کھیت پانی میں ڈوبے یا دھوپ میں جلتے دکھائی دیتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات نے کسانوں کی زندگیوں کو اس حد تک اجیرن بنا دیا ہے کہ کھیتی باڑی اب روزگار نہیں بلکہ جوئے کے کھیل کی مانند بن چکی ہے۔
اس برس پھر وہی مناظر لوٹ آئے ہیں۔ یکے بعد دیگرے بادل پھٹنے، شدید مون سون بارشوں اور اچانک آنے والے سیلاب نے ملک کے مختلف حصوں میں تباہی مچائی ہے۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی میٹ مہر صاحبزاد کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ پاکستان کا کاربن اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن اس کے پڑوسی ممالک جیسے چین (16 فیصد) اور انڈیا (آٹھ فیصد) بڑے اخراج کنندگان ہیں، جس کے اثرات براہِ راست پاکستان پر پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق صرف جون کے آخر سے اب تک 800 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، سات ہزار 225 گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو گئے، جب کہ پانچ ہزار 500 سے زیادہ مویشی بہہ گئے۔ کھڑی فصلیں برباد، گاؤں اجڑ گئے اور کسانوں کے خواب پھر مٹی میں مل گئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2022 کے تباہ کن سیلاب نے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا، 40 لاکھ ہیکٹر زرعی زمین پانی میں ڈبو دی، 1700 سے زائد جانیں لیں اور معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا۔

جنوبی پنجاب کے شہر مظفرگڑھ میں واقع ایک گاؤں کے کسان محمد سلیم بلوچ بھی ان لاکھوں متاثرین میں سے ایک ہے، جو قدرتی آفات جیساکہ سیلاب اور بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ2012 میں میٹرک کے بعد انہوں نے خاندانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کھیتی باڑی سے منسلک ہوگئے اور انہوں نے مختلف اقسام کی سبزیاں اگانا شروع کردیں۔
محمد سلیم بلوچ بتاتے ہیں کہ ابتدا میں تو منافع تسلی بخش نہیں تھا اور رہی سہی کسر 2014 کے سیلاب نے کردی، جس نے ان کی کھڑی فصلیں تباہ کردیں، گھاس، سبزیاں اور یہاں تک کہ گنے کی کاشت بھی خوب متاثر ہوئی، جس سے ان کا خاصا نقصان ہوا اور انہیں قرض تک لینا پڑا۔
محمد سلیم کہتے ہیں کہ پھرکچھ عرصہ تو نہایت مشکل گزرا، خاصی محنت کر کے قرض اتارے اور حالات کچھ بہتر ہوئے لیکن یہ زیادہ دیر تک نہ رہے۔ 2025 کے آغاز میں سبزیاں اگائیں، مگر حکومتی نااہلی اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے پھر سوچا کیوں نہ اس بار آم کا کاروبار کیا جائے اور انہوں نے آم خرید لیے، لیکن حالیہ ہونے والی بارشوں نے انہیں ایک بار پھر برباد کردیا ہے۔ آئے روز آنے والی بارشوں سے آموں کی ایک بڑی تعداد وقت سے پہلے ٹوٹ کر گرگئے اور یوں انہیں اس بارش سے ایک بار پھر چھ لاکھ تک کا نقصان ہوا ہے، اب ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا، انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں۔ رحمت بن کر برسنے والی بارش، ان کے لیے زحمت ثابت ہوئی ہے۔
مہر صاحبزاد کے مطابق حالیہ برسوں میں بارشوں کی شدت اور غیر معمولی پن نے گلیشیئرز کو پگھلا دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک کو بار بار سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور فلیش فلڈنگ جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی فہرست میں پاکستان اب دنیا کے پہلے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔
دنیا میں کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر عالمی ماحولیاتی خطرات کی فہرست میں یہ ملک سرفہرست ہے۔ کلائمیٹ رسک انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جو سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج کا پاکستان وہ ہے، جہاں مون سون بارشیں حسن اور نکھار کی علامت نہیں رہیں بلکہ تباہی اور خوف کی علامت بن چکی ہیں۔

پاکستان کے جی ڈی پی کا 24 فیصد زرعی شعبے سے آتا ہے اور تقریباً چار کروڑ افراد کا روزگار اس شعبے سے جڑا ہے۔ مگر زمین پر کام کرنے والے یہ لوگ آج سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔
پاکستان اکنامک سروے 2024-25 کے مطابق گزشتہ برس گندم اور کپاس جیسی بڑی فصلیں 13.5 فیصد سکڑ گئیں، جس سے معیشت کی شرح نمو میں 0.6 فیصد کمی واقع ہوئی۔ ایک حالیہ رپورٹ میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ گلشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے دریاؤں کا نظام متاثر ہو رہا ہے۔
ڈی جی میٹ کہتے ہیں کہ 2015 میں پیرس پروٹوکول کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جائے تاکہ تباہ کن اثرات سے بچا جا سکے۔ 2024 میں دنیا کا درجہ حرارت اس حد کو عبور کر چکا ہے اور یہ 1.55 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں یہ اضافہ اور بھی زیادہ یعنی 1.68 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے جنوری اور جولائی 2024 دونوں غیر معمولی حد تک گرم مہینے ثابت ہوئے۔ صرف شمالی پاکستان (گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے پہاڑی علاقے) میں یکم اگست سے 11 اگست تک اوسط درجہ حرارت معمول سے 7 سے 9 ڈگری زیادہ رہا، جس کے نتیجے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھلے اور مقامی آبادیوں کو فلیش فلڈنگ اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔
وفاقی وزیرِ موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک کے مطابق اگر یہ طوفانی پانی ہمارے انفراسٹرکچر اور زرعی زمینوں کو تباہ کرتا رہا تو معیشت اور کسان دونوں کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے۔
سندھ کے رانی پور سے تعلق رکھنے والے محمد رضا کسان ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے، مگر ان کے مطابق فصلیں اب پہلے جیسی نہیں رہیں۔ کبھی خشک سالی، کبھی بارش کی کمی اور کبھی شدید بارشیں اس کی کھیتی کو برباد کر دیتی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ آمدنی کم ہونے کے باعث اسے چھوٹا کاروبار شروع کرنا پڑا مگر زمین چھوڑنے کا دکھ الگ ہے۔ مزید یہ کہ مویشیوں کی چارہ نہ ملنے کے باعث اکثر دوسرے کسانوں کے مویشی کھیت اجاڑ دیتے ہیں۔

انٹرنیشنل مائیگریشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق صرف 2022 کے سیلاب کے نتیجے میں 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، جن میں سب سے زیادہ کسان تھے، جو زمین چھوڑ کر شہروں میں روزگار ڈھونڈنے پر مجبور ہو گئے۔
سائنس جرنل “نیچر” میں شائع ایک تحقیق کے مطابق 1950 سے 2012 تک پاکستان کے انڈس میدان میں 19 بڑے سیلاب آئے، جن سے 11 ہزار 239 افراد ہلاک ہوئے اور 39 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ ان میں سے نصف آفات 2000 کے بعد پیش آئیں۔
یہ تصویر صرف موجودہ سال کی نہیں بلکہ دہائیوں پر پھیلا ہوا ایک کرب ہے۔ ہر سال کسان کبھی سیلاب تو کبھی قحط سے لڑ رہا ہے۔ جو لوگ زمین چھوڑنے پر مجبور ہوئے وہ غربت اور بے روزگاری کے ایک اور جہنم میں جا گرے۔
پاکستان میں کسان آج بھی اپنی زمین سے جڑے ہوئے ہیں مگر زمین انہیں مسلسل دھوکہ دے رہی ہے۔ زرعی معیشت، جو کبھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی، موسمیاتی تبدیلی کے وار سہتے سہتے اب ٹوٹنے کے قریب ہے۔
مہر صاحبزاد کہتے ہیں کہ پاکستان میں جنگلات کی کٹائی اور درختوں کی کمی نے موسمیاتی اثرات کو بڑھا دیا ہے۔ اگر ایک درخت کاٹا جائے تو اس کے بدلے کم از کم دس درخت لگانے چاہییں تاکہ ماحول پر پڑنے والے اثرات کو متوازن کیا جا سکے۔ اس تبدیلی کے اثرات فوری نہیں آتے بلکہ برسوں بعد ظاہر ہوتے ہیں۔
محمد سلیم عظمت، محمد رضا اور ان جیسے ہزاروں کسانوں کی کہانیاں اس کرب کی علامت ہیں، جو لاکھوں کسانوں کی زندگیوں پر بیت رہا ہے۔ ایک برس سیلاب، اگلے برس خشک سالی اور تیز بارشیں پاکستان کے مستقبل کو نگل رہی ہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو کسانوں کی زندگیاں صرف کھیتوں میں نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت کے ہر گوشے میں برباد ہو جائیں گی۔