غزہ کی فضا میں اب بھی خاموش دھواں معلق ہے، مگر سب سے زیادہ وزنی چیز بےیقینی ہے۔ سوال وہی: حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ کیوں نہیں ہو رہا؟ دنیا بھر میں سفارتی کوریڈور گرم ہیں، لاکھوں لوگ ڈیل پر دھیان دیتے ہیں، لیکن فیصلہ کن لمحہ ہر روز ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل جاتا ہے۔
قطر اور مصر کی ثالثی سے جو 60 روزہ جنگ بندی اور یرغمالی تبادلے کا فریم ورک سامنے آیا، حماس نے اسے قبول کیا؛ اسرائیل نے ابھی تک باقاعدہ جواب نہیں دیا۔ اس دوران جنگ کے موڈ میں کوئی کمی نہیں، بلکہ داخلی دباؤ اور عسکری پیش رفت جاری ہے، اسی تعطل نے ہر امید کو پیچیدہ بنا دیا۔
دوحہ اور قاہرہ میں جو بات چیت ہوتی رہتی ہے، اس کا ڈھانچہ کچھ یوں ہے: محدود دورانیے کے لیے روکاوٹی جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی، اور امداد و بحالی کے راستوں کی بحالی کا وعدہ۔ اس میں عملیت موجود ہے، مگر اصلی رکاوٹیں “پہلے فعل، پھر عمل” کے تصور، اگلی امن شقوں کی ترتیب اور یقین دہانی کی ضمانتوں میں پوشیدہ ہیں، یعنی پہلے کون کیا کرے، اور کس صورت میں؟ یہی پہلو مذاکرات کو الجھا رہا ہے۔
اسرائیلی عہدے داران کا داخلی دباؤ نہایت اہم ہے۔ مظاہرین کی جانب سے “کسی بھی قیمت پر ڈیل” کا مطالبہ ہے، لیکن حکومت کے دائیں بازو کے اتحادی “مکمل فتح” پر ہی رضامند ہیں۔ نتیجتاً خالد ربط کی حکمتِ عملی پر تاکید ہوتی ہے: بات چیت ضرور، لیکن صرف اسرائیلی شرائط کے تحت، اور جنگ بندی یا کم عسکری کارروائی کے بغیر۔ حالیہ دنوں میں غزہ سٹی تک کارروائی کے اشارے اور “انخلا ناگزیر” جیسے بیانات اسی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔
حماس کی سوچ بھی پیچیدہ ہے۔ اگر وہ صرف وقتی وقفہ قبول کرے گی، تو اس کی سیاسی اور عسکری بقاء خطرے میں آ جائے گی۔ اس کے نزدیک جنگ بندی کو فوجی دباؤ کو ختم کرنے اور مستقل تنازعے کی شکل سے نکال کر سیاسی تسلیمات میں تبدیل کرنے کا ہتھیار ہونا چاہیے۔ یہی اختلاف “سیزفائر بمقابلہ مستقل ڈیل” کی حد بندی کو دھندلا دیتا ہے۔

اس دوران، انسانی المیے کا حجم بڑا ہے، اقوامِ متحدہ اور دیگر اداروں نے قحط، وبا، اور جبری بے دخلی کا اعلان کیا ہے، اور پوپ نے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ مگر سول سوسائٹی کی انسانی تشویش سیاسی اور عسکری حسابات میں دب کر رہ جاتی ہے، جس کی وجہ سے امن کی شفاف راہیں بند پڑی ہیں۔
اس “کیوں نہیں ہو رہا؟” کا جواب تین بنیادی نکات میں سمٹتا ہے: پہلے کون جھکے؟ جنگ بندی یا یرغمالی تبادلے؟ جنگ کے بعد حکمرانی کا نظام کیا ہوگا؟ اور کسی بھی خلاف ورزی پر ضمانت کون کون اور کس شکل میں دے گا؟
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سفارتکار علی یامین نے کہا کہ کامیاب ڈیل کے لیے تین چیزیں لازم ہیں: ایک واضح ٹائم لائن، دوسرے ایک مشترکہ تحریری ضمانت، قطر، مصر اور امریکہ کی جانب سے اور تیسرے بعد از جنگ انتظام کی قابل قبول صورت۔ جب تک اسرائیل حماس کے مسلح اخراج پر اور حماس اپنی سیاسی بقاء پر ضد کرے گی، بیچ میں کوئی مستقل راستہ نظر نہیں آئے گا۔
ماہرین کے مطابق اسرائیل کی داخلی سیاست فیصلہ کن ہے۔ اگر حکومت سوچتی ہے کہ ڈیل اس کی سیاسی حاکمیت کو کمزور کرے گی، تو دباؤ برقرار رکھا جائے گا، چاہے بین الاقوامی تنقید کتنی بھی شدید ہو۔ حماس بھی ایسا جنگ بندی نہ چاہتی جو صرف وقفہ ہو، بلکہ اسے سیاسی اعتراف اور مستقبل کا حصہ بننے کا اضافی وزن چاہیے۔ دونوں فریق “زیادہ طلبی” کی حکمت کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں اور کسی طرف قدم رکھنے سے گریزاں ہیں۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بین الاقوامی قانون کی ماہر رضیہ عالم بخش کا کہنا تھا کہ انسانی بحران کی موجودگی میں جنگ بندی نہ ہونا قوانینِ جنگ کی روح کے منافی محسوس ہوتا ہے۔ قحط اور طبی سہولیات پر حملے جیسے واقعات دباؤ کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ لیکن قانونی دباؤ اُس وقت اثر رکھتا ہے، جب خلاف ورزی پر فوری اور واضح قیمت، اقتصادی ہو یا سفارتی، عائد ہو۔ ابھی یہ “قیمت” مبہم ہے، اور اسی وجہ سے ہر بار معاہدہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
میدانِ جنگ بالکل خاموش نہیں ہے۔ اسرائیل نے غزہ سٹی کے نزدیک دوبارہ آپریشن کا اشارہ دیا، جب کہ قطر کہتا ہے کہ اسرائیل نے حماس کی قبول شدہ تجویز کا رسمی جواب نہیں دیا۔ یہ متوازی ٹریک، سفارتی اور عسکری، اعتماد سازی کے بجائے شکوک کو ہوا دے رہے ہیں۔ جب دھماکوں کی گونج جاری ہو، کسی سیاسی حرکت کو “کمزوری” سمجھا جاتا ہے، اور یوں ہر پیش رفت ایک دوسرے سے فاصلے بڑھا دیتی ہے۔
پاکستانی میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی میں مقیم سابق سفارتکار ایوب اللہ نے بتایا، کامیاب ڈیل کے لیے مرحلہ وار اور ہم وقت اقدامات ضروری ہیں: مثلاً سات سے دس روز کی ابتدائی جنگ بندی جس میں محدود تبادلے ہوں، اور امدادی کوریڈور کھولے جائیں۔
بعد از جنگ انتظام کے لیے مضامین میں مشترکہ و کثیرالحکومتی کردار ہونا چاہیے، جس میں عرب اور بین الاقوامی طاقتیں شرکت کریں، اور فلسطینی نمائندگی بھی شامل ہو۔ خلاف ورزی کی صورت میں تحریری اشتراطات کے ساتھ خودکار سیاسی، سفارتی یا اقتصادی تنبیہات ہونی چاہئیں۔

ایک دفاعی تجزیہ کار نے مزید کہا کہ اسرائیل کیا مکمل عسکری فتح جاری رکھ سکتا ہے، جب عالمی تنہائی اور داخلی دباؤ بڑھ رہا ہو؟ حماس اپنے سیاسی اور عسکری ڈھانچے کی بقاء کے لیے جنگ بندی کو استعمال کرنا چاہتی ہے، لیکن ایسی ڈیل قبول نہیں کرے گی جو اس کی سیاسی جگہ محدود کرے۔ ثالثوں کا کردار صرف ثالثی کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے؛ انہیں ضمانت دینے والا کردار ادا کرنا ہوگا، ضامن بنتے ہوئے۔
مزید پڑھیں:غزہ میں شہید ہونے والا رائٹرز کا صحافی حسّام المصری کون تھا؟
ان حالات میں، معاہدہ صرف کاغذ پر ممکن ہے، میدان میں تباہی جاری ہے، غزہ کے لوگ ایک اور اندھیری رات میں ہیں۔ جب تینوں سطحوں—سکیورٹی، حکمرانی، ضمانت—پر مشترکہ مفاد کا خاکہ بنے اور اس پر سیاسی دستخط واقعی وزن والے ہوں، تب معاہدے کی راہ نمائی کا امکان پیدا ہوگا۔ تب تک “کیوں نہیں ہو رہا؟” کا سابقہ جواب یہی دیا جائے گا: ہر طرف “زیادہ بہتر” لمحے کا انتظار ہے، اور جنگیں ایسے ہی چلتی رہتی ہیں—جب تک کوئی ایک فریق قیمت ادا کرنے کو تیار نہ ہو۔