امریکا میں ایک مسلح شخص نے بدھ کے روز ایک کیتھولک چرچ کی شیشے والی کھڑکیوں سے فائرنگ کی، جہاں پیرش اسکول کے طلبہ ماس میں شریک تھے۔ اس حملے میں دو بچے ہلاک اور 17 افراد زخمی ہوگئے۔
منیاپولس پولیس چیف برائن اوہارا کے مطابق، حملہ آور کی شناخت 23 سالہ روبن ویسٹمین کے طور پر ہوئی، جس نے چرچ کے عقب میں خود کو گولی مار کر ہلاک کر لیا۔
اوہارا نے حملے کی وجہ بتانے سے گریز کیا۔ تاہم ویسٹمین کی ایک ویڈیو پیغام میں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ڈپریشن میں مبتلا تھا اور سابقہ اجتماعی حملہ آوروں سے متاثر تھا۔
ایف بی آئی ڈائریکٹر کاش پٹیل نے کہا کہ یہ حملہ “کیتھولک عقیدے کو نشانہ بنانے والی ملکی دہشت گردی اور نفرت انگیز جرم” کے طور پر تفتیش کے دائرے میں ہے۔
دو ہلاک ہونے والے بچے آٹھ اور دس سال کے تھے، جو اپنی نشستوں پر ہی فائرنگ کی زد میں آئے۔ عبادت گزاروں نے خود کو بچانے کے لیے بنچوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی جبکہ بڑے بچے چھوٹوں کو ڈھال بناتے رہے۔ حکام کے مطابق چرچ کے کم از کم دو دروازے باہر سے لکڑی کے تختوں سے بند کیے گئے تھے۔

یہ حملہ تعلیمی سال کے پہلے بدھ کو ہونے والے سالانہ آل اسکول ماس کے موقع پر ہوا، جو ایننسی ایشن کیتھولک اسکول میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اسکول میں تقریباً 395 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
اوہارا نے کہا “یہ معصوم بچوں اور عبادت کرنے والے دیگر افراد کے خلاف ایک سوچا سمجھا حملہ تھا۔ ایک چرچ میں موجود بچوں پر گولی چلانا انتہائی بزدلی اور بے رحمی ہے۔”
فائرنگ میں دو بچوں کی ہلاکت کے علاوہ 17 افراد زخمی ہوئے جن میں 14 طلبہ (عمر 6 سے 18 سال) اور تین معمر عبادت گزار شامل تھے۔ تمام زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی ہے۔
معلومات کے مطابق ویسٹمین اسی اسکول کا سابقہ طالب علم تھا اور اس نے 2017 کے اسکول سالنامے میں اپنا نام “رابرٹ” درج کرایا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ویسٹمین نے یوٹیوب پر ایک “مینفیسٹو” شیئر کیا تھا جو بعد میں ہٹا دیا گیا۔ اس میں اس نے ڈپریشن اور اجتماعی فائرنگ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس کے ہتھیاروں پر پرانے اسکول حملہ آوروں کے نام بھی درج تھے۔
امریکی وزیرِ داخلہ کرسٹی نوم نے کہا کہ مشتبہ شخص نے خود کو “ٹرانس جینڈر” قرار دیا تھا اور معصوم بچوں کو نشانہ بنایا۔

تاہم منیاپولس کے میئر جیکب فری نے خبردار کیا کہ اس سانحے کو صنفی سیاست سے نہ جوڑا جائے۔ ان کا کہنا تھا “جو بھی اس واقعے کو ٹرانس کمیونٹی یا کسی اور کمیونٹی کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، وہ انسانیت کھو چکا ہے۔”
انہوں نے ہتھیاروں کی آسان دستیابی کو امریکا میں اجتماعی فائرنگ کی بڑی وجہ قرار دیا۔
ویسٹمین نے رائفل، شاٹ گن اور پستول سے درجنوں گولیاں چلائیں۔ یہ سبھی ہتھیار قانونی طور پر حال ہی میں خریدے گئے تھے۔ مزید ہتھیار اس کے دیگر ٹھکانوں سے بھی برآمد ہوئے۔
پانچویں جماعت کے طالب علم ویسٹن ہالسنے نے نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ اس کا دوست اسے بچانے کی کوشش میں زخمی ہوا “گولیاں بالکل میرے قریب لگ رہی تھیں، میرا خیال ہے بارود کی راکھ میری گردن پر گری۔”
ریکارڈز کے مطابق ویسٹمین کی والدہ چرچ میں ملازمہ رہ چکی ہیں۔ رشتہ داروں نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
ویسٹمین کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا اور وہ اکیلا ہی یہ حملہ کر رہا تھا۔ وہ اس سال کچھ ماہ تک منی سوٹا کے ایک کینابیس ڈسپنسری میں ملازم رہا، مگر بعد میں وہاں سے الگ ہوگیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی پرچم سرنگوں کرنے کا حکم دیا تاکہ اس واقعے پر سوگ منایا جا سکے۔
یہ واقعہ اس سال امریکا کے اسکولوں میں پیش آنے والا 146واں فائرنگ کا واقعہ تھا۔ تاہم زیادہ تر اسکول حملوں کے برعکس، اس حملے میں فائرنگ عمارت کے باہر سے کی گئی۔