Follw Us on:

تیس روپے کے جھگڑے میں دوبھائیوں کا قتل: عدم برداشت کا کلچر پاکستان کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟

حسیب احمد
حسیب احمد
Whatsapp image 2025 08 30 at 11.09.49 pm
رائے ونڈ میں دو بھائیوں کو قتل کردیا گیا تھا(تصویر: پاکستان میرز)

پاکستان کی موجودہ صورتحال میں جہاں معاشرتی بے چینی، سیاسی عدم استحکام اور مذہبی تقسیم نے شہری زندگی کی پیچیدگیوں کو بڑھا دیا ہے وہاں نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں پیش آنے والا دوہرے قتل کا واقعہ جس میں راشد اور واجد کو اویس اور تیمور نامی دو بھائیوں نے قتل کر دیا اس مسئلے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک خاندان کی تباہی کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ پاکستانی نوجوانوں کے درمیان تشدد اور انتقامی رویوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

21 اگست کو جب راشد اور واجد (جو دودھ کے کاروبار سے جڑے ہوئے تھے) اپنے کام سے واپس گھر آ رہے تھے راستے میں پھل خریدنے کے لئے رکے تو ان کا جھگڑا اویس اور تیمور نامی دو بھائیوں سے ہو گیا۔ یہ جھگڑا ڈنڈوں اور کرکٹ بیٹ سے حملے کی صورت میں تبدیل ہو گیا جس کے نتیجے میں دونوں بھائی ہلاک ہو گئے۔

سعید اقبال، جو کہ مقتولین کے والد ہیں ان نے اس واقعہ کی رپورٹ تھانہ رائیونڈ سٹی میں درج کرائی۔ اس واقعہ نے ایک طرف نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رجحانات کو اجاگر کیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے شہری علاقوں میں عدم برداشت کی بڑھتی ہوئی سطح پر بھی سوال اٹھایا ہے۔

پاکستانی معاشرتی حالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ موجودہ دور میں نوجوانوں میں ذہنی دباؤ، غصہ، اور انتقامی جذبات بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ نوجوان نہ صرف اپنے اردگرد کی معاشرتی ناانصافیوں کا شکار ہیں بلکہ میڈیا، سیاست، اور مذہبی شدت پسندی کی اثرات سے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

ان کے اندر یہ جذبات اس وقت شدت اختیار کر جاتے ہیں جب انہیں معاشی، سیاسی، یا مذہبی سطح پر محرومیت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے تشدد، عدم برداشت اور انتقامی رویوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نفسیات کے ماہر ڈاکٹر آثر اجمل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک طرف تو سیاسی عدم استحکام ہے جہاں مختلف فرقوں اور گروپوں کے درمیان دشمنی بڑھ رہی ہے وہیں مذہبی شدت پسندی اور انتہا پسندی بھی نوجوانوں کو منفی طور پر متاثر کر رہی ہے۔

Raiwind

مذہب اور سیاست کے درمیان تعلق اور ان کے اثرات نوجوانوں کی ذہنیت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زیادہ جذباتی اور بے صبر ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں جہاں ایک طرف یہ نوجوان زندگی کے بہتر مواقع کی تلاش میں ہیں وہیں دوسری طرف ان کے اندر مایوسی اور غیرت کے نام پر انتقامی جذبات بھی پروان چڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا کردار بھی نوجوانوں میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحانات میں اہمیت رکھتا ہے۔

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ نے نوجوانوں کی زندگیوں میں ایک نیا باب کھول دیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ پلیٹ فارمز ان کے لئے مسائل اور منفی اثرات کا بھی سبب بنے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سیاسی، مذہبی اور فرقہ وارانہ بحثیں نوجوانوں میں غصے اور تناؤ کو بڑھا رہی ہیں۔

آثر اجمل کا کہنا تھا کہ مختلف سیاسی اور مذہبی گروہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو فروغ دیتے ہیں جس سے نوجوانوں کے ذہنوں میں انتقامی سوچ اور تشدد کی نفرت پیدا ہوتی ہے۔

میڈیا کی اس تیزرفتار دنیا میں جہاں ہر روز لاکھوں کی تعداد میں ویڈیوز، پوسٹس، اور خبروں کا تبادلہ ہوتا ہے نوجوانوں کو ایسے مواد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ فرقہ وارانہ جھگڑے مذہبی شدت پسندی اور سیاسی اختلافات سوشل میڈیا پر بڑھ چکے ہیں جس کا براہ راست اثر نوجوانوں کی ذہنی حالت پر پڑتا ہے۔

دوسری جانب افسانہ نگار اظہر حسین نے اپنی کہانیوں اور تخلیقی کام کی روشنی میں اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں نوجوانوں میں عدم برداشت کے رجحانات کی وجوہات مختلف ہیں۔ پنجاب کی شہری اور دیہی ثقافت میں واضح فرق موجود ہے جس کی وجہ سے یہاں کے نوجوانوں میں عدم برداشت کی سطح بھی مختلف ہوتی ہے۔ پنجاب میں جہاں ایک طرف بڑی صنعتیں اور تعلیمی ادارے ہیں وہاں دوسری طرف دیہی علاقوں میں ابھی بھی جاگیردارانہ نظام اور روایتی سوچ کا غلبہ ہے جس کا اثر نوجوانوں کی زندگیوں پر پڑ رہا ہے۔

لاہور جیسے بڑے شہر میں جہاں نوجوانوں کو تعلیم اور کام کے بہتر مواقع ملتے ہیں وہیں یہاں کے نوجوان مختلف مذہبی، فرقہ وارانہ اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔

دوسری طرف پنجاب کے دیہی علاقوں میں نوجوانوں کی زندگیوں میں غیرت خاندان اور فرقہ واریت جیسے مسائل زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں جس کے باعث ان میں عدم برداشت اور تشدد کے رجحانات میں اضافہ ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رجحانات نوجوانوں کی ذہنی حالت اور ان کے رویوں پر سنگین اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

یہ نوجوان اپنے مسائل کا حل تشدد میں دیکھتے ہیں اور اس طرح کا رویہ معاشرتی امن و سکون کو متاثر کرتا ہے۔ سڑکوں پر جھگڑے، اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں لڑائیاں اور دیگر عوامی جگہوں پر تشدد کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ نوجوانوں میں برداشت کی کمی ہو چکی ہے۔

Image
پاکستان کے مختلف علاقوں میں نوجوانوں میں عدم برداشت کے رجحانات کی وجوہات مختلف ہیں۔ (تصویر: گوگل)

پاکستانی معاشرتی ڈھانچہ اس قدر پیچیدہ ہو چکا ہے کہ یہاں کے نوجوانوں میں اخلاقی تربیت کی کمی اور تعلیمی اداروں میں بھی پرامن زندگی گزارنے کی تعلیم کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔

مزید براں حکومت کی جانب سے نوجوانوں کے لیے کوئی واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں مایوسی اور عدم برداشت کی سطح بڑھ گئی ہے۔

اظہر حسین کا کہنا تھا کہ اس بڑھتے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے چند اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں نوجوانوں کو تعلیمی اداروں میں رواداری محبت اور امن کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔

تعلیمی نصاب میں اس بات کو شامل کیا جائے کہ نوجوانوں کو معاشرتی انصاف احترام اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ والدین کو بھی اپنے بچوں کی ذہنی تربیت میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔

دوسرا یہ کہ میڈیا کو ذمہ داری کا احساس دلانا ضروری ہے تاکہ وہ نوجوانوں کے ذہنوں میں منفی خیالات اور تشدد کے رجحانات کو فروغ دینے سے گریز کرے۔

ڈاکٹر آثر اجمل کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے حکومت کو بھی ایک مؤثر حکمت عملی اپنانا ہوگی تاکہ نوجوانوں کو انٹرنیٹ پر پھیلنے والی شدت پسند اور منفی مواد سے بچایا جا سکے۔

مزید پڑھیں: میری ہنسی مجھے لوٹا دو!

نوجوانوں کو مثبت تفریحی سرگرمیوں کی جانب راغب کرنا ضروری ہے۔ کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے سے نوجوانوں کو اپنی توانائی کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کا موقع ملے گا جو ان کی ذہنی سکونت کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔

واضح رہے کہ لاہور کے قریب رائیونڈ کے علاقے میں 30 روپے کے جھگڑے میں دو بھائیوں کو قتل کرنے کے الزام میں زیر حراست دو افراد پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزمان اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔

Author

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس