پنجاب میں بڑی صنعتوں کے مزدوروں کو قانونی کم از کم اجرت سے بھی کم معاوضہ دیا جا رہا ہے۔
پنجاب کی بڑی صنعتوں ‘ایل ایس ایم’ میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔ تازہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ زیادہ تر صنعتوں میں مزدوروں کی تنخواہیں نہ صرف مہنگائی کا مقابلہ نہیں کر رہیں بلکہ سرکار کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ سے بھی پیچھے ہیں۔
اگرچہ کھاد اور تمباکو جیسی چند صنعتوں میں تنخواہوں میں کچھ بہتری دکھائی دی ہے لیکن یہ صرف چند مثالیں ہیں، مجموعی تصویر کافی مایوس کن ہے۔ عام مزدور کی اصل آمدنی کم ہو گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ پہلے سے بھی کم چیزیں خرید پاتا ہے۔

یہ صورت حال مالی سال 2021 سے 2025 کے درمیان سامنے آئی جب صوبے میں کم از کم ماہانہ اجرت 17500روپے سے بڑھ کر 39000روپے تک پہنچی۔
اس دوران کھاد اور تمباکو کے شعبوں میں کچھ اجرتوں میں اضافہ ضرور ہوا مگر وہ بھی قانونی معیار سے نیچے رہا۔ سب سے زیادہ مزدور رکھنے والا ٹیکسٹائل شعبہ فی مزدور اوسطا 22000 روپے ماہانہ دیتا ہے جو کم از کم اجرت سے کہیں کم ہے۔ اسی طرح شوگر، سیمنٹ اور فارماسیوٹیکل صنعتیں بھی کم ادائیگی کی مرتکب ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق تعمیراتی شعبے میں یومیہ اجرتیں نہ صرف زیادہ ہیں بلکہ دیگر صنعتوں کی نسبت بہتر کارکردگی بھی دکھا رہی ہیں۔ اگرچہ ان اجرتوں میں بھی افراط زر کے باعث حقیقی کمی آئی ہے تاہم وہ بڑی صنعتوں کے مقابلے میں اب بھی بہتر سطح پر ہیں۔

ماہرین کے مطابق صنعتوں میں کم اجرت کی ایک بڑی وجہ ملازمین کو یومیہ اجرت پر رکھنا، کام کے اوقات کو کم ظاہر کرنا اور ملازمت کی درجہ بندی میں رد و بدل کرنا ہے۔ اس طرح قانونی اجرت کا اطلاق عملی طور پر ممکن نہیں ہو رہا۔
روزگار اور اجرت کا تضاد بھی واضح ہے۔ مثال کے طور پر سیمنٹ کے شعبے میں اوسط تنخواہ تقریباً ایک لاکھ روپے تک پہنچی مگر ملازمین کی تعداد چھ ہزار سے کم ہو کر چار ہزار سے بھی کم رہ گئی۔
کھاد کی صنعت میں اجرت ڈیڑھ لاکھ روپے تک بڑھی مگر روزگار کے مواقع کم ہو گئے۔ شوگر صنعت میں روزگار بڑھا مگر اجرتیں اب بھی غیر یقینی ہیں۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑی صنعتوں کی 70 فیصد افرادی قوت آج سے چار سال پہلے کی نسبت بدتر حالات میں ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی لیبر مارکیٹ میں داخل ہو رہی ہے جہاں نہ تو مناسب نوکریاں موجود ہیں اور نہ ہی قانونی اجرت دی جا رہی ہے۔
واضع رہے کہ اب تک حکومت کی جانب سے اس صورت حال پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ماہرین کے مطابق اجرتوں میں پائے جانے والا خلا صرف لیبر مارکیٹ کی ناکامی نہیں بلکہ ایک سنگین آبادیاتی خطرہ ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔