Follw Us on:

کالا باغ ڈیم ریاست کی ضرورت ہے، تحفظات بات چیت سے دور کیے جائیں، علی امین گنڈاپور

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Ali amin
ڈیمز کی تعمیر میں تاخیر کے باعث بہت زیادہ نقصان ہوا، علی امین (فوٹو: گوگل)

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم ریاست کے لیے ضروری ہے اور اگر اس منصوبے پر کسی کو تحفظات ہیں تو بات چیت کے ذریعے انہیں دور کیا جانا چاہیے۔

خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے بارشوں اور سیلابوں سے ملک کو بھاری نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم بعض اوقات ڈیمز کے نام لینے سے بھی ہچکچاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم ریاست کے لیے ضروری ہے۔

علی امین گنڈاپور نے اعلان کیا کہ خیبر پختونخوا اس منصوبے میں اپنا حصہ ڈالنے کو تیار ہے، دیگر صوبوں کو بھی اس کی تعمیر میں کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ملک کو درپیش پانی کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔

وزیر اعلیٰ کے پی نے کہا کہ ڈیمز کی تعمیر میں تاخیر کے باعث بہت زیادہ نقصان ہوا، اسی لیے صوبائی حکومت اب اپنے طور پر ڈیم بنا رہی ہے۔ گزشتہ سال چھ ڈیم مکمل کیے گئے، گومل زام ڈیم سے نقصانات میں کمی آئی ہے، جب کہ مزید اضلاع میں بھی ڈیمز کی تعمیر جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پشاور کو سیلابی خطرات سے بچانے کے لیے جبہ ڈیم تعمیر کیا جا رہا ہے، بڈھنی پشاور میں سیلابی تحفظ کے لیے حفاظتی دیوار بنائی جا رہی ہے۔

علی امین گنڈاپور نے کہا تھا کہ بونیر میں کلاؤڈ برسٹ ہوا ہے، جس کا درختوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ موسمی شدت کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو سکتے ہیں۔

Ali amin gandapur
پشاور کو سیلابی خطرات سے بچانے کے لیے جبہ ڈیم تعمیر کیا جا رہا ہے، علی امین (فوٹو: گوگل)

انہوں نے کہا کہ صوبے میں سیلابی ریلوں کے ساتھ آنے والے پتھروں کو روکنے کے لیے سوئٹزرلینڈ کی طرز پر نیٹ لگانے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے صوبے کے کئی اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں، مختلف حادثات میں 411 افراد جاں بحق، جب کہ 132 زخمی ہوئے، اس کے علاوہ 12 افراد تاحال لاپتا ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن میں کلاﺅڈ برسٹ کے نتیجے میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی صورتحال پیدا ہوئی، جس سے بونیر، شانگلہ، سوات، بٹگرام، باجوڑ اور صوابی سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

علی امین کا کہنا کہ اب تک مجموعی طور پر ساڑھے 12 ہزار خاندان متاثر ہوئے، 571 گھر مکمل جب کہ 1983 گھر جزوی طور پر تباہ ہوئے، اس کے علاوہ 1996 دکانوں کو نقصان پہنچا۔ سیلابی صورتحال میں 413 سڑکیں، 72 پل اور 589 سرکاری عمارتیں متاثر ہوئیں، جب کہ بجلی کے 99 فیڈرز بند ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ ریسکیو آپریشن کے دوران صوبائی حکومت کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوا، جس میں عملے کے پانچ افراد شہید ہوگئے۔ 15 اگست سے متاثرہ اضلاع میں ایمرجنسی نافذ ہے۔

مزید پڑھیں: نئے ڈیمز کی بات ہوتی ہے تو سیاسی دکانداری نہ کریں اور قوم کا سوچیں، خواجہ آصف

وزیرِاعلیٰ کے پی کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں نے بروقت کارروائی کی، جس کے نتیجے میں 6700 افراد کو زندہ بچایا گیا۔ آپریشن میں 2500 ریسکیو اہلکار، 1000 سول ڈیفنس رضا کار، پاک فوج کے تین یونٹس اور پانچ ہیلی کاپٹرز شریک ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ایمبولینسز، فائر فائٹرز، کشتیاں اور دیگر 176 گاڑیاں پہنچائی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ سڑکوں اور پلوں کی بحالی کے لیے سی اینڈ ڈبلیو کی 200 ہیوی مشینری تعینات ہیں، چار موبائل ہسپتال اور میڈیکل کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔ اب تک ڈھائی لاکھ متاثرین کو پکا ہوا کھانا فراہم کیا گیا ہے، جب کہ 15 واٹر فلٹریشن پلانٹس بھی نصب کیے گئے ہیں۔

علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ اموات کے معاوضے کو 10 لاکھ روپے سے بڑھا کر 20 لاکھ فی کس کردیا گیا ہے، جب کہ زخمیوں کے معاوضے کو ڈھائی لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ کردیا گیا ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس