کچھ اچھا کرنا ہے تو ضرور کریں مگر براہ کرم سیلاب متاثرہ کسان سے مذاق مت کریں،اپنے فوٹوسیشن کے چکر میں،اپنی ٹک ٹاک کے چکر میں،اپنے ویوز کے چکر میں اور سوشل میڈیا پر اپنی واہ واہ کے چکر میں لاچارکسانوں سےمذاق مت کریں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے سیلاب آیا ہے،ایک طرف پنجاب کا کسان تباہ و برباد ہوچکا ہے،فصلوں پر پانی پھر گیاہے،مکانات گر گئے ہیں،جانوروں کا چارہ تباہ ہوگیا ہے،چاول کی فصل پر کسان کی ایک امید بندھی تھی،کئی قرض اس وعدے پر لیے تھے کہ فصلیں اٹھاتے ہی واپس کریں گے۔
کئی نےشادی بیاہ کے دن طے کرلیے کہ فصل اٹھائیں گے تو کریں گے مگر اب تو ہر طرف پانی ہی پانی ہے،ہرطرف فصلوں کی بربادی ہے،پھر فصل کون سی اٹھائیں گے؟کہاں سے کمائیں گے اور سارا سال کیا کھائیں گے؟
جو ہرسیلاب میں ہوتاہے، اس بار بھی وہی خدشے ہیں،وہی پریشانیاں ہیں مگر اب کی بار تباہی زیادہ ہے،اب کی بار فصل دوبارہ اُگنے کی امید باقی نہیں،یہ دیا گویا آندھیوں کی زدہ میں پہلے ہی تھا،اب ٹمٹانا بھی بند ہوگیاہے،پھر ٹوٹی ہوئی امید کیساتھ کسان اٹھے گا مگر قرضوں کے بوجھ نے اسے جلد اٹھنے نہیں دینا، یہ احساس بھی کسی کو نہیں ہونا کہ یہ کسان عزت نفس پر سمجھوتہ نہیں کرتا،یہ ایک ایک پاؤ کے پیکٹ کیلئے قطاروں میں بھی نہیں لگتا۔
یہ اپنی عزت بنانے والے،سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اور دکھاوے کی نیکی کرنے والےکی جھوٹی مسکراہٹ،مگرمچھ کے آنسو پر یقین نہیں رکھتا،یہ عزت سے بھوکا مرنا پسند کرتاہے،یہ قطاروں میں ذلیل ہونا پسند نہیں کرتا۔شہروں سے آنے والے ٹرک،حکومتی مہروالے چاول کے پیکٹ اس کے کسی کام کے نہیں۔
آپ سرمایہ دار ہیں،مخیر ہیں یا پھرحکومتی نمائندے ہیں،سوچیں کہ سیلاب متاثرہ کسان کو در حقیقت ضرورت کیا ہے؟
کسی کسان نے زرعی قرضہ لیا ہے تو اسے معاف کردیں،اگلے چھ ماہ کے لیے ٹیوب ویل،بجلی کے بل معاف کردیں،آڑھتی کے کھاتے ہیں تو ساری عمر جسے کھایا ہے تم نے،اس بار اس کے کھاتے معاف کردیں،وہ سب واجبات جو حکومت نے لینے ہیں،وہ سب واجبات جو آڑھتی نے لینے ہیں اس ٹوٹے ہوئے،بکھرے ہوئے،سیلاب کے پانی میں ٹھٹھرتے بوڑھے کسان کو معاف کردیں۔
مگر یہ بھی بتا ہی دیتاہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا،فنڈز جو اونٹ کے منہ میں زیرہ ہوں گے،وہ جاری کرکے خبریں چلادی جائیں گی،وہ فنڈز مختلف افسران کے ہاتھوں سےہوتے ہوئے نجانے کہاں جائیں گے،مذکورہ کسان تک نہ پہنچنے کا خدشہ ہے،کسان پھر محروم رہے گا،کسان پھر اپنی زمین سے اڑتی گرد سے اپنے آنسو صاف کرکے پھر اللہ سے امید باندھ کر فصل اگانے کی کوشش کرے گا۔
کیوں کہ یہ محنتی کسان ہمیشہ سے کوشش ہی کرتا آیا ہے،حکومتوں اور آڑھتیوں نے حصہ بقدر جثہ اسے نچوڑا ہے،یہی وجہ ہے کہ کسان آج بھی خوشحال نہیں ہوپایا،آڑھتی کے محل کھڑے ہوگئے اور حکومتی ایوانوں کی رونقیں مزید بڑھ گئیں۔
سیلاب زدہ کسان کی حالت پر ترس آجائے تو حکومت اور آڑھتیوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ خدا کو راضی کرنا ہے تو خدا کے بندے کسانوں کو راضی کرلیں،ورنہ آج آفت کسان پر آئی ہے کل کو یہ آفت آپ پر بھی آسکتی ہے!!۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی فیس بک وال سے لی گئی ہے، ادارے کا ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر