ترک صدر رجب طیب ایردوان نے امریکا کی جانب سے فلسطینی حکام کے ویزے منسوخ کرنے اور انہیں رواں ماہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے عالمی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کے فیصلے کو اقوام متحدہ کے مقاصد کے منافی قرار دیا ہے۔
چین سے واپسی کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک صدر نے کہاکہ امریکا کو اس فیصلے پر فوری طور پر نظرثانی کرنی چاہیے، یہ فیصلہ اقوام متحدہ کے قیام کے مقصد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی دنیا کے مسائل پر بات چیت اور ان کے حل کے لیے قائم کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہافلسطینی وفد کا جنرل اسمبلی میں موجود نہ ہونا صرف اسرائیل کو خوش کرے گا۔ امریکا سے جو توقع کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے مظالم اور قتل عام کو روکے۔
واضح رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے فلسطینی صدر محمود عباس اور دیگر حکام کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن نے انتہاپسندی کی مذمت میں ناکامی دکھائی ہے، جبکہ وہ یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کے لیے عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا باقاعدہ آغاز 9 ستمبر سے ہوگا، تاہم عالمی رہنما رواں ماہ کے آخر میں نیویارک میں ملاقات کریں گے، جہاں اسرائیل کے غزہ پر جاری فوجی آپریشن پر بڑھتی ہوئی عالمی تنقید کی توقع ہے۔
نیٹو کے رکن ملک ترکی نے اسرائیل کے اقدامات پر شدید تنقید کی ہے، اسے نسل کشی قرار دیا ہے، اسرائیل کے ساتھ تمام تجارتی روابط منقطع کر دیے ہیں اور عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ ترکی نے بارہا عالمی طاقتوں سے اسرائیل کی حمایت بند کرنے کا بھی کہا ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں اپنے اقدامات کو نسل کشی قرار دیے جانے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تمام کارروائیاں اس کی خود دفاع کی پالیسی کے تحت کی جارہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں نسل کشی کے ماہرین کی ایک تنظیم کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد کو بھی اسرائیل نے مسترد کیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے الزامات کے لیے قانونی بنیادیں پوری ہو چکی ہیں۔