Follw Us on:

بورڈ آف ریونیو نے شکارگاہ چولستان حکومت پنجاب کی ملکیت قرار دے دیا

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
فائل فوٹو/گوگل

پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کے اثرات اور ریاستی زمینوں کے مستقبل پر بحث ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب لینڈ کمیشن نے ایک اہم سرکاری خط کے ذریعے وفاقی حکومت کو شکارگاہ چولستان کی ملکیت کے حوالے سے حتمی قانونی مؤقف فراہم کیا ہے۔

اس خط میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ شکارگاہ چولستان حکومت پنجاب کی ملکیت ہے اور نواب آف بہاولپور کے وارثان اس پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ یہ معاملہ کئی دہائیوں سے مختلف قانونی اور عدالتی مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ تاہم اب پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں حتمی اعلان کر دیا ہے کہ شکارگاہ مکمل طور پر صوبائی ملکیت ہے۔

پنجاب لینڈ کمیشن کی جانب سے یہ جواب وفاقی حکومت کے 9 جنوری 2025 کے خط کے ردعمل میں جاری کیا گیا۔ وفاقی حکومت نے اس خط میں پنجاب کے بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر سے مرحوم نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کی غیر منظم جائیداد کے لیے تشکیل دی گئی نفاذ کمیٹی کے حوالے سے وضاحت طلب کی تھی۔ پنجاب لینڈ کمیشن نے اپنے جواب میں سپریم کورٹ کے فیصلوں، آئینی و قانونی دفعات اور انتظامی احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کی کہ شکارگاہ کسی بھی نجی فرد یا خاندان کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔

پنجاب لینڈ کمیشن کے مطابق “1961 کے ایکٹ کے تحت اور 1969 کے امیر بہاولپور آرڈر کے مطابق ڈیراور میں کچھ غیر منقولہ جائیداد کے علاوہ پوری شکارگاہ حکومت پنجاب کی ملکیت قرار دی جا چکی ہے؛ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین اہم فیصلے اس معاملے پر موجود ہیں جو تمام عدالتی اور انتظامی اداروں کے لیے لازم العمل ہیں؛ 1972 کے MLR-115 کے پیرا 16 کے مطابق شکارگاہ کے تمام علاقے حکومت کے حق میں بحال کر دیے گئے ہیں اور اس زمین پر کسی بھی شخص کو کوئی ملکیتی حق یا مالی معاوضہ نہیں دیا جا سکتا۔”

یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں متعدد مرتبہ زیر بحث آ چکا ہے جہاں عدالت نے اس زمین کو حکومت پنجاب کی ملکیت قرار دیا ہے۔ پنجاب حکومت کے مطابق “سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تحت یہ زمین ایک سرکاری اثاثہ ہے اور اس کی نجکاری یا کسی فرد کو منتقلی ممکن نہیں۔ نواب آف بہاولپور کے ورثہ اس زمین پر کوئی قانونی مطالبہ نہیں کر سکتے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف کسی جوڈیشل یا انتظامی افسر کو حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں۔ ایسا کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آئے گا۔ یہ فیصلے پاکستان کے تمام عدالتی اور انتظامی اداروں پر لاگو ہوتے ہیں، اور ان کے برخلاف کوئی بھی دعویٰ قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔”

دوسری جانب نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کے ورثا کئی سالوں سے یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ شکارگاہ ان کے آباؤ اجداد کی ملکیت تھی، اور انہیں اس پر حق دیا جائے۔ تاہم پنجاب حکومت کے حالیہ فیصلے نے ان تمام دعووں کو مسترد کر دیا ہے۔

پنجاب لینڈ کمیشن نے واضح کیا کہ “یہ زمین ریاستی اثاثہ ہے اور اس پر کسی خاندان یا فرد کا حق نہیں ہو سکتا۔ بحال شدہ شکارگاہ کی وراثت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ نجی جائیداد نہیں بلکہ عوامی ملکیت ہے۔ پنجاب حکومت ہی شکارگاہ چولستان کی نگران اور کسٹوڈین ہے، اور اسی کے تحت اس کا انتظام چلایا جائے گا۔”

ریونیو بورڈ کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن

پنجاب حکومت نے تمام ضلعی اور ڈویژنل افسران کو ہدایت دی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اس سلسلے میں احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ “تمام سرکاری محکموں کو ہدایت دی گئی ہے کہ شکارگاہ سے متعلق کسی بھی قسم کے ملکیتی دعوے کو مسترد کر دیا جائے۔ اگر کوئی فرد یا گروہ اس معاملے پر دوبارہ قانونی کلیم کرتا ہے تو اسے فوراً رد کر دیا جائے گا اور قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ضلعی اور ڈویژنل انتظامیہ کو حکم دیا گیا ہے کہ شکارگاہ کی مکمل حفاظت اور سرکاری کنٹرول کو یقینی بنایا جائے۔”

علاوہ ازیں پنجاب حکومت نے اس خط کی کاپیاں تمام متعلقہ حکام کو بھیج دی ہیں تاکہ اس معاملے پر کوئی ابہام باقی نہ رہے اور سرکاری زمین کو محفوظ بنایا جا سکے۔

شکارگاہ چولستان، جو کہ تین لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل ہے، ریاست بہاولپور کے دور میں نواب کی ذاتی ملکیت تھی۔ تاہم 1971 میں پاکستان میں ریاستی نظام کے خاتمے کے بعد بہاولپور سمیت تمام نوابی ریاستوں کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔اس کے بعد 1972 کے MLR-115 قانون کے تحت حکومت نے کئی نوابی جائیدادوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا جن میں شکارگاہ بھی شامل تھی۔ اس دوران نواب کے خاندان کو کچھ جائیدادیں واپس دی گئیں لیکن شکارگاہ کو عوامی اثاثہ قرار دے کر حکومت پنجاب کے حوالے کر دیا گیا۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا جس میں حکومت کے مؤقف کو درست قرار دیا گیا۔

پنجاب حکومت کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ شکارگاہ چولستان مکمل طور پر حکومت پنجاب کی ملکیت رہے گی۔ اس پر نواب آف بہاولپور کے وارثان کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جائے گا، اور اگر کسی نے اس حوالے سے کوئی قانونی کارروائی کی تو اسے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں فوراً خارج کر دیا جائے گا۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نواب خاندان اس فیصلے پر کیا ردِ عمل دیتا ہے، اور کیا اس معاملے میں کوئی نئی قانونی جنگ شروع ہوتی ہے یا نہیں۔ تاہم، حکومتی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ حتمی ہے او اس پر مکمل عمل درآمد کیا گا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس