امریکی اخبار نیویارک پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2019 میں نیوی سیل کی ریڈ اسکواڈرن ٹیم نے شمالی کوریا میں ایک خفیہ مشن کے دوران غیر مسلح شہریوں کو قتل کر دیاتھا۔
یہ مشن اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منظوری سے کیا گیا تھا، جس کا مقصد شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن کی کمیونیکیشنز کو روکنے کے لیے ایک ڈیوائس کو نصب کرنا تھا۔ تاہم اچانک پیش آنے والے حالات کے باعث آپریشن ناکام ہوگیا اور ٹیم کو خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا۔
نیو یارک پوسٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس اور امریکی نیوی نے ان کی خبر پر کوئی ردعمل نہیں دیا، جب کہ پینٹاگون نے بھی تبصرے سے انکار کیا ہے۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے سے لاعلم ہیں اور وہ اس بارے میں پہلی بار سن رہے ہیں ۔

رپورٹ کے مطابق یہ انتہائی حساس اور خطرناک مشن ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں تیار کیا گیاتھا۔ اس آپریشن کے دوران اگر امریکی کمانڈوز گرفتار ہو جاتے تو اس سے ایٹمی مذاکرات تعطل کا شکار ہو سکتے تھے یا پھر یرغمالی صورتحال جنم لے سکتی تھی۔ اسی وجہ سے اس منصوبے کے لیے براہِ راست صدارتی منظوری درکار تھی۔
امریکی نیوی کے سیلرز نے اس مشن کی تیاری کے لیے مہینوں تک مشقیں کیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ ایک ایٹمی آبدوز سے دو چھوٹے ویٹ سبز کے ذریعے کمانڈوز ساحل تک پہنچیں گے، ساحل پر ڈیوائس نصب کریں گے اور خفیہ طور پر واپس لوٹ آئیں گے۔
فروری 2019 میں مشن کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ مگر ساحل پر پہنچنے کے بعد اچانک ایک شمالی کوریائی ماہی گیر کشتی وہاں آ گئی۔ کمیونیکیشن کے ذرائع نہ ہونے اور گرفتاری کے خطرے کے پیش نظر ایک سینیئر کمانڈو نے پکڑے جانے کے ڈر سے فائر کھول دیا، جس کے بعد باقی ٹیم نے بھی فائرنگ شروع کر دی۔
رپورٹ کے مطابق کشتی پر موجود پانچ سے چھ غیر مسلح شہری، جو محض سیپیاں پکڑنے آئے تھے مارے گئے۔ سیلرز نے لاشوں کو پانی میں پھینک کر ان کے پھیپھڑوں میں چھید کر دیے تاکہ وہ تیر نہ سکیں اور ڈوب جائیں۔
واقعے کے فوری بعد امریکی جاسوسی سیٹلائٹس نے علاقے میں شمالی کوریا کی فوجی سرگرمیوں میں اچانک اضافہ نوٹ کیا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ پیونگ یانگ حکام کو اصل صورتحال کا علم ہو سکا یا نہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ نہ تو کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹیوں کو پہلے سے بتایا گیا اور نہ بعد میں انہیں اس کے متعلق آگاہ کیا گیا، جسے ماہرین امریکی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔
سابق سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ 2021 میں بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کے چند منتخب ارکان کو اس معاملے پر بریفنگ دی، تاہم تفصیلات بدستور خفیہ ہیں اور تاحال عام نہیں کی گئیں۔