پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے اندرونی معاملات اور کرکٹ کے میدان میں ہونے والے چیلنجز نے ایک بار پھر کرکٹ کے شائقین کو سر پکڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔
پاکستانی ٹیم کا حالیہ ریکارڈ بالخصوص شان مسعود کی کپتانی میں ایک سنگین سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ اس نے نہ صرف اپنی قیادت میں کئی میچز ہارے ہیں بلکہ ان کی اپنی پرفارمنس بھی ان کے کپتان بننے کے فیصلے پر سوالات اٹھاتی ہے۔
ذرائع کی اطلاعات ہیں کہ عالمی کرکٹ کی ایک عظیم شخصیت ویرات کوہلی رانجی ٹرافی کے ایک اہم میچ میں محض چھ رنز پر کلین بولڈ ہو گئے۔
یہ واقعہ نہ صرف کوہلی کے لیے ایک دھچکا تھا بلکہ اس سے ایک بار پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کرکٹ میں کامیاب ہونے کے لیے کیا عوامل درکار ہیں؟
جہاں ایک طرف ویرات کوہلی جیسے کھلاڑی اپنی ناکامی کو جلدی سے دور کرتے ہیں وہیں دوسری طرف شان مسعود کی کپتانی میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی نے نہ صرف ان کے لیے بلکہ کرکٹ فینز کے لیے بھی ایک سنگین سوال چھوڑا ہے: آیا پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے یہ فیصلہ درست تھا؟
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق فرسٹ کلاس کرکٹر، سپورٹس جرنلسٹ دلبر خان کا کہنا ہے کہ “اگر دیکھا جائے تو ‘شان مسعود’ سابق ٹیسٹ کپتان سرفراز احمد سے اچھے ٹیسٹ کپتان ہیں،ان کے فلاپ ہونے کی وجہ ٹیم میں بابر ،رضوان کے ساتھ دوسرے ٹاپ آرڈر ز کا فلاپ ہونا ہے‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر دیکھا جائے تو قومی کرکٹ ٹیم دورہ جنوبی افریقہ میں جیتا ہوا ٹیسٹ ہاری اور اب ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری ٹیسٹ بھی فتح کے قریب پہنچ پر ہار گئے‘۔ مجموعی طور پر وہ بہترین کپتان ہیں اور فرنٹ سے لیڈ کرتے ہیں پلانننگ اچھی ہوتی ہے دوسرا ان کی فتوحات اور شکستوں میں پاکستانی وکٹوں کا زیادہ قصور ہے۔
پاکستان کرکٹ کے شائقین اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شان مسعود کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے انہیں کپتان بنانا کتنا درست تھا۔
اس کے علاوہ بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان نے سری لنکا کے خلاف ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا آغاز جیت کے ساتھ کیا تھا پھر اچانک شان مسعود کو کپتان بنا دیا گیا۔
پاکستان کرکٹ کے اس بحران میں اہم ترین عنصر پی سی بی کی سلیکشن پالیسی اور اس کے مختلف فیصلے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 2021 میں انگلینڈ کے خلاف پاکستان کو پہلی ٹیسٹ شکست کے بعد سلیکشن کمیٹی اور پچز پالیسی میں تبدیلی کی گئی۔ یہ فیصلہ اوپر سے آیا تھا اور پھر عاقب جاوید کو لانچ کیا گیا تھا جس کے بعد ملتان میں خاص طور پر ایک نئی پچ تیار کی گئی۔
یہ پچ پاکستانی کرکٹرز کو اسپن کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے تیار کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود پاکستان کی ٹیم میں بدترین فیصلے کیے گئے، اور ایک کے بعد ایک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اسی طرح راولپنڈی میں بھی پاکستان نے ایسی پچ تیار کی جس پر اسپنرز کو فائدہ پہنچا۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان کا ریکارڈ متاثر کن نہیں رہا۔جنوبی افریقہ میں پاکستان کی ٹیم کی شکست اور پھر ویسٹ انڈیز کے خلاف شکست نے پاکستان کرکٹ کی حقیقت کو مزید اجاگر کیا ہے۔
شان مسعود کی پرفارمنس کا جائزہ لیں تو ان کی ٹیسٹ کیریئر میں 42 میچز میں 2380 رنز بنائے ہیں جس میں صرف چھ سنچریاں اور گیارہ ہاف سنچریز شامل ہیں۔ ان کی اوسط 30.12 ہے اور ان کا ہائی سکور 156 ہے۔ ان کے سٹرائیک ریٹ کی بات کی جائے تو یہ 52.43 ہے، جو ایک ٹیسٹ کرکٹر کے لیے خاصا کم ہے۔
اب یہ واضع ہوتا ہے کہ شان مسعود کا ٹیسٹ کرکٹ میں پرفارمنس کے لحاظ سے کوئی خاص کردار نہیں رہا اور جبکہ وہ ابھی بھی ٹیم میں اپنی جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
ان کی حالیہ پرفارمنس خاص طور پر جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ان کی کپتانی میں ناکامیوں کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ملتان میں 52 رنز بنانے کے بعد ان کی باقی اننگز 11، 15 اور 2 تک محدود رہیں جو کہ ایک ناکامی کی علامت ہیں۔
شان مسعود کی کپتانی کا ریکارڈ تقریباً پاکستانی کرکٹ کے تاریخ میں سب سے زیادہ ناکام رہا ہے۔ انہوں نے رواں صدی کے دوران 12 ٹیسٹ میچز میں سے صرف تین جیتے ہیں باقی نو میچز میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کی کپتانی میں جیت اور ہار کا تناسب محض 0.33 فیصد رہا، جو کہ ایک سنگین حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ اس کے برعکس سابق کپتان بابر اعظم کا ریکارڈ کہیں بہتر رہا ہے جنہوں نے 20 میچز میں سے 10 جیتے اور چھ ہارے تھے ان کا جیتنے کا تناسب 1.66 فیصد ہے۔
دوسری جانب ہمسایہ ملک کے سابق ٹیسٹ کپتان ویرات کوہلی اور روہت شرما جیسے عالمی کھلاڑی جو اپنے کیریئر کے اختتام پر ہیں مگر اب وہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے ہیں جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک کرکٹ میں کھیلنے کا موقع دے تاکہ وہ اپنی فٹنس اور فارم کو بہتر بنا سکیں۔
اگر ہم ماضی کی تاریخ دیکھیں تو مصباح الحق اور انضمام الحق جیسے کھلاڑیوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین پرفارمنس دی تھی اور اس کے بعد ان کی بین الاقوامی کرکٹ میں کامیابیاں ملیں۔
سابق کرکٹر عتیق الزمان نے کہا کہ ’میرے خیال سے شان مسعود کی کپتانی باقی کپتانوں سے بہتر ہے۔ اسکی بات کرنے کی سکلز اچھی ہیں۔ اچھے فیصلے کرتا ہے۔ کافی بولڈ سکلز ہیں۔ ابھی اسکو زیادہ تجربہ نہیں ہے کپتانی کا وہ آہستہ آہستہ سیکھے گا اور اسکو تھوڑا لمبا عرصہ چا ہیے۔
دیکھیے جب آسٹریلیا جاتے ہیں یا ساؤتھ افریقہ جاتے ہیں تو بڑی سیریز کھیلتے ہیں، انگلیند کے خلاف تو اس سے پہلے بھی بہت سے کپتانوں کو وائٹ واش ہوئی ہے۔ اور اگر پاکستان نے کسی کو وائٹ واش کیا ہے تو ہوم سیریز میں کیا۔ میرے خیال سے سارا عمل دخل ہارنے میں کپتان کا نہیں ہوتا پوری ٹیم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر دوسری ٹیم اپنی ذمہ داری اچھے انداز سے سرانجام دیتی ہے تو اس کے جیتنے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔
شان مسعود کا مستقبل پاکستان کرکٹ میں اب دھندلا نظر آ رہا ہے۔ ان کی کپتانی میں پاکستان کی پرفارمنس اور ان کی اپنی انفرادی پرفارمنس دونوں سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔
کرکٹ کے شائقین اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ شان مسعود کو اپنے کھیل کو بہتر بنانے کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں مزید محنت کرنی چاہیے اور پھر ٹیم میں واپس آنا چاہیے۔
اس کے علاوہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ اپنی سلیکشن پالیسی پر نظر ثانی کرے تاکہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل روشن ہو سکے۔