Follw Us on:

بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال, ’یہ صوبے کی کامیاب ترین ہڑتال تھی‘

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Shutter down
ہڑتال دو ستمبر کو کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے جلسے کے باہر ہونے والے خودکش حملے کے خلاف کی گئی تھی۔ (فوٹو: این ای پی)

کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں سات سیاسی جماعتوں کی اپیل پر شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی جس کے نتیجے میں صوبے کے بیشتر شہروں میں کاروباری اور تجارتی مراکز مکمل طور پر بند رہے اور سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ بڑی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے آمد و رفت معطل کر دی گئی۔

یہ ہڑتال دو ستمبر کو کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے جلسے کے باہر ہونے والے خودکش حملے کے خلاف کی گئی تھی جس میں 14 سیاسی کارکن اور ایک پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 40 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ جلسے میں شریک بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور دیگر رہنما حملے سے کچھ دیر پہلے وہاں سے گزرے تھے۔

رہنماؤں نے اس حملے کو بلوچستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو نشانہ بنانے کی سازش قرار دیتے ہوئے صوبے بھر میں احتجاج کی کال دی تھی۔

ہڑتال کی کال بی این پی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مجلس وحدت المسلمین نے دی تھی جبکہ جمعیت علمائے اسلام، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی، پشتون تحفظ موومنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر جماعتوں نے بھی حمایت کی تھی۔

بلوچستان میں اس قدر مؤثر ہڑتال دیکھنے میں آئی جس کے دوران معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے۔ کوئٹہ، چمن، پشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب، لورالائی، دکی، مستونگ، قلات، سوراب، خضدار، خاران، واشک، چاغی، نوشکی، پنجگور، تربت، گوادر، سبی، نصیرآباد، جعفرآباد، کوہلو اور دیگر اضلاع میں بیشتر کاروباری مراکز اور تجارتی مارکیٹیں بند رہیں۔

Shutter down.
رہنماؤں نے اس حملے کو بلوچستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو نشانہ بنانے کی سازش قرار دیتے ہوئے صوبے بھر میں احتجاج کی کال دی تھی۔ (فوٹو: اے این پی)

کوئٹہ کے لیاقت بازار، جناح روڈ، کندھاری بازار، زرغون روڈ اور سرکی روڈ سمیت نواحی علاقوں میں بھی دکانیں بند اور ٹریفک معطل رہی جس سے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر مریضوں اور ہسپتال جانے والے افراد کو دشواری ہوئی جبکہ کئی علاقوں میں تندور، ہوٹل اور میڈیکل اسٹور بھی بند رہے۔

ہڑتال سے قبل محکمہ داخلہ بلوچستان نے صوبے بھر میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ زبردستی دکانیں اور سڑکیں بند کرانے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی اور دس سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد ہوگی۔

محکمے کے مطابق ایئرپورٹ اور ریلوے اسٹیشن جانے والے راستے، ہسپتال اور تعلیمی ادارے سمیت لازمی سروسز کو متاثر کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ہڑتال کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئیں۔

ایئرپورٹ روڈ، سریاب روڈ، مغربی بائی پاس اور جناح روڈ پر پولیس نے سڑکیں کھلوانے کی کوشش کی تو کارکنوں نے پتھراؤ کیا جس پر پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا۔

ان جھڑپوں میں مغربی بائی پاس پر ایس ایچ او قادر قمبرانی پاؤں میں گولی لگنے سے زخمی ہوگئے جبکہ پولیس کی ایک گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔ پولیس کے مطابق ایئرپورٹ روڈ، سریاب روڈ اور سٹی ایریا سمیت مختلف علاقوں سے 30 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

بی این پی کے مرکزی نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ نے الزام لگایا کہ حکومت نے پرامن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے لیے طاقت استعمال کی اور مختلف جماعتوں کے رہنماؤں سمیت سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا۔

ان کے مطابق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال، صوبائی صدر قہار خان ودان، بی این پی کے سابق رکن اسمبلی نصیر احمد شاہوانی، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما خان زمان کاکڑ اور ثناء اللہ کاکڑ، جماعت اسلامی کے نائب امیر حلیم حماس، بی این پی، تحریک انصاف اور نیشنل پارٹی کے ضلعی عہدیداروں سمیت درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ پولیس نے ان کی موجودگی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دفتر پر کئی بار شیلنگ کی۔ ان کے بقول یہ صوبے کی تاریخ کی کامیاب ترین ہڑتال تھی جس میں ژوب سے گوادر تک تمام شہر اور شاہراہیں بند رہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہڑتال بلوچستان کے عوام کی طرف سے ایک ریفرنڈم تھا جس میں صوبے کی حقیقی سیاسی قوتوں نے فارم 47 کی حکومت اور طاقتور اداروں کے خلاف اپنے موقف کا اظہار کیا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس