نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سمیت مختلف شہروں میں فوجی سپاہیوں نے سڑکوں پر گشت شروع کر دی ہے۔ بدھ کے روز کرفیو کے دوران فوجی دستے پارلیمنٹ کی حفاظت پر مامور رہے، جب کہ شہر کی زیادہ تر سڑکیں سنسان اور بازار بند رہے۔
دوسری جانب نیپالی فوج نے اعلان کیا ہے کہ کرفیو جمعرات کی صبح تک نافذ رہے گا اور کسی بھی قسم کے مظاہرے، توڑ پھوڑ، آتش زنی یا لوٹ مار کی صورت میں سخت کارروائی کی جائے گی۔
یہ صورتِ حال اس وقت پیدا ہوئی جب انسداد بدعنوانی کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دے دیا۔
عالمی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نیپال میں یہ احتجاج گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر پابندی کے اعلان سے شروع ہوا تھا تاہم صورتحال اس وقت بگڑ گئی جب پیر کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 19 افراد ہلاک ہوگئے۔
نیپالی وزارت صحت کے مطابق مرنے والوں کی تعداد بدھ تک بڑھ کر 25 ہوگئی جبکہ 633 افراد زخمی ہیں۔ مظاہروں کے دوران مشتعل افراد نے پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، وزراء کے گھروں اور وزیر اعظم اولی کی رہائش گاہ سمیت کئی سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی۔

پارلیمنٹ کی عمارت کے مرکزی ہال میں لگی آگ نے پورا ڈھانچہ تباہ کر دیا جب کہ اطراف میں جلی ہوئی گاڑیوں اور ملبے کے ڈھیر لگ گئے۔
ٹی وی فوٹیج میں نوجوانوں کو سڑکوں اور عمارتوں سے ملبہ صاف کرتے دیکھا گیا، جب کہ فوجی فائر فائٹرز آگ بجھانے میں مصروف رہے۔ فوج کے ترجمان راجہ رام بسنت نے کہا کہ فورسز حالات کو معمول پر لانے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔
دوسری جانب صورت حال قابو میں آنے سے قبل قیدیوں نے کھٹمنڈو کی دلی بازار جیل کو بھی آگ لگا دی تھی۔ کھٹمنڈو کا مرکزی ہوائی اڈہ بدھ کو دوبارہ کھول دیا گیا جہاں پروازیں ایک دن سے زیادہ معطل رہی تھیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکام اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کی تیاری بھی جاری ہے تاہم اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج بلرام کے سی نے مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ تحلیل کر کے نئے انتخابات کرائے جائیں اور ایک نگران حکومت قائم کی جائے۔
یاد رہے کہ مظاہروں میں زیادہ تر نوجوان شامل تھے جنہوں نے بدعنوانی کے خلاف آواز بلند کی اور حکومت کی معاشی پالیسیوں پر مایوسی کا اظہار کیا۔ مبصرین نے ان احتجاج کو جنریشن زی کی تحریک قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ نیپال میں ملازمتوں کی کمی کے باعث لاکھوں افراد روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں۔ ایک زخمی نوجوان سمن رائے نے اسپتال کے بستر سے کہا کہ اگر خون بہانا ہمارے مستقبل کے لیے بہتر ہے تو مظاہروں میں حصہ لینا درست تھا۔
یاد رہے کہ نیپال کی موجودہ ہلچل نے ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کو اجاگر کیا ہے جو 2008 میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد سے جاری ہے۔
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے نیپالی عوام سے امن قائم رکھنے کی اپیل کی، جب کہ چین نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی ملک میں استحکام واپس آجائے گا۔