ہیلو، میں غلام شبیر ہوں۔
کون غلام شبیر؟
آپ کا ہم جماعت، میٹرک میں اکٹھے پڑھتے تھے۔
اچھا اچھا مجھے یاد آگیا، کس حال میں ہو۔ کیسے یاد کیا؟
روتے ہوئے بولا، بھائی ہمارے گھرڈوب چکے ہیں، چار مکانات گر چکے ہیں اور ہم اس وقت جڑالہ سٹیشن پر کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، کچھ ہوسکتا ہے تو ہمارے لیے کریں۔
اس کی آواز میں اتنا درد تھا کہ میری آواز بھر آئی، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ صرف یہ ایک کال نہیں ایسے درجنوں پیغامات ملے ہیں جو سیلاب متاثرہ علاقوں میں سرکاری بد انتظامی، وفاقی وزراء، عوامی نمائندوں کی بے حسی کا رونا روتے پائے گئے۔
دریائے راوی عبد الحکیم کے مقام پر ہیڈ سدھنائی کو بچانے کیلئے مائی صفوراں کا حفاظتی بند توڑا گیا ہے، اس حفاظتی بند میں آدھا کلومیٹر چوڑا ، 40 فٹ گہرا شگاف ہے۔ اس شگاف کو دانستہ طور پر بند نہیں کیا جارہا ۔ دریائے راوی اپنا نیا راستہ بنا چکا ہے۔
اس وقت دریائے راوی کا پانی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل پیر محل، ضلع خانیوال کی تحصیل کبیروالہ اور ضلع جھنگ کی تحصیل شورکوٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ شگاف پر نہ کیا گیا تو متاثرہ علاقوں میں کچھ نہیں بچے گا۔
ضلع ٹوبہ کے 14 دیہات، ضلع خانیوال کے 12 اور ضلع جھنگ کے بھی 10 دیہات اس پانی کی زد میں ہیں۔ درکھانہ، جڑالہ، گھگھ بار، کوٹ اسلام، فاضل شاہ سبھی ڈوب چکے ہیں۔ گھر سلامت نہیں رہے۔ فصلیں ملیا میٹ ہوچکی ہیں۔
مائی صفوراں شگاف کو ابھی تک پر نہیں کیا گیا اور اس کی وجہ سے ان علاقوں میں بڑی تباہی مچی ہوئی ہے، پانی ضلع جھنگ تک جا پہنچا ہے جو ہیڈ سدھنائی سے تقریباً 85کلومیٹر دور ہے۔
پانی مکانوں کی چھتوں پر سے گزر رہا ہے، پانی کی بلندی 10فٹ تک ہے۔
اس وقت دفاعی پیداوار کے وفاقی وزیر بیریسٹر رضا حیات ہراج نے بتایا ہے کہ ابھی وہ کٹ بند نہیں ہوسکتا جب تک دریا کا پانی کم نہ ہو۔ یہ وہی وزیر ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی اراضی کو بچانے کے لیے بند کو غریب عوام گھروں، فصلوں کی طرف شگاف ڈلوایا۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ ہیڈ سدھنائی سے مزید پانی گزر سکتا تھا مگر انہوں بند تڑوانے میں جلدی کی۔
رضا حیات ہراج ان الزامات کی نفی کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے راوی کا پانی چناب نے قبول نہیں کیا جس کے باعث پانی واپس ہوا اور ہیڈ سدھنائی پر دباؤ بڑھنے کے بعد بند میں شگاف ڈالا گیا، ایسا نہ ہوتا تو پانی ہیڈ سدھنائی کے ساتھ عبدالحکیم شہر کو بھی ملیا میٹ کردیتا جہاں فوجی چھاؤنی بھی موجود ہے۔
عبدالحکیم شہر تو بچ گیا درکھانہ کی سرزمین پر سیلاب کی بے رحم موجوں نے بستیاں اُجاڑ دیں، کھیت ویران ہو گئے اور زندگی اپنی رونقیں کھو بیٹھی۔ جہاں کبھی ہریالی لہراتی تھی، وہاں آج کیچڑ اور ملبے کا ڈھیر ہے۔ گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے، اور ہر طرف ایک ہی منظر ہے، تباہی، ویرانی اور آنسو ہیں۔
یہ منظر قیامت سے کم نہیں۔
یہ چیخیں دل کو چھید دیتی ہیں۔
کھیت، جو کبھی کسانوں کی محنت کی گواہی دیتے تھے، آج ویرانی اور بربادی کا عکس ہیں۔ وہ ہاتھ جو زمین کو آباد کرتے تھے، اب خالی دعاؤں میں اٹھے ہیں۔ عورتیں، جو گھروں کی رونق تھیں، آج کھلے آسمان تلے بے بس بیٹھی ہیں۔ ان کی آنکھوں کے آنسو ہی ان کے دکھ کی زبان ہیں۔
یہ بربادی صدیوں یاد رکھی جائے گی۔
یہ سیلاب صرف پانی نہیں لایا، یہ خوابوں کو بہا لے گیا۔ یہ عزتیں، سہولتیں اور سکون سب چھین کر لے گیا۔ ہر طرف چیخیں اورسسکیاں ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے “میرا سب کچھ ختم ہو گیا”، کوئی رو رہا ہے “میرا گھر، میری دنیا، سب اجڑ گیا”، اور کوئی خاموش ہے کیونکہ الفاظ بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔
یہ خاموشی سب کچھ کہہ جاتی ہے۔
پنجاب کی دھرتی گواہ ہے کہ یہ صرف بارش نہیں، یہ ایک کرب کی داستان ہے۔ یہ خطاؤں اور کوتاہیوں کا بوجھ ہے جس نے بے بس انسانیت کو ڈبو دیا۔ یہ تباہی صرف زمین کو نہیں بلکہ دلوں کو بھی روند گئی ہے۔
یہ زخم وقت بھی نہیں بھر سکے گا۔