حکومت پاکستان کے باربار اعلانات اور وعدوں کے مطابق ملک میں بجلی سستی نہیں ہورہی جبکہ دیہی علاقوں میں 18،18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔سیاسی جماعتیں وقتاً فوقتاً احتجاج کرتی نظرآتی ہیں، جمعہ کے روز جماعت اسلامی نے ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج کیا۔
سردیوں کے موسم میں بجلی کا استعمال کم ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بجلی کا ماہانہ بل قدرے کم رہتا اور بلند آہنگ احتجاج کی وجہ نہیں بنتا۔ البتہ پاکستان کے بالائی علاقوں کے مکینوں کو شکوہ ہے کہ انہیں روزانہ 20 بیس گھنٹے بجلی میسر نہیں رہتی۔
وزارت توانائی کے ڈیٹا کے مطابق جنوری 2025 میں بجلی کی متوقع فی یونٹ قیمت 32 سے 64 روپے ہے۔ سب سے کم 32 روپے صفر سے 100 یونٹ اور زیادہ 64.06 روپے 700 سے زائد یونٹ خرچ کرنے والوں کے لیے ہے۔
سرکاری ڈیٹا کے مطابق بجلی کی فی یونٹ قیمت 50.17 روپے جب کہ ہر یونٹ پر تقریبا 14 روپے کا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ بجلی کے بلوں پر نو مختلف اقسام کے ٹیکس اور چارجز عائد کیے جاتے ہیں۔
مہنگی بجلی پر ملک بھر میں احتجاج، غم وغصہ کے اظہار کا سلسلہ خودکشیوں اور قتل جیسے افسوسناک واقعات تک جا پہنچا تھا۔ اسی دوران جماعت اسلامی نے معاملے پر احتجاج کیا جس کا دائرہ بڑھا تو اسلام آباد، راولپنڈی میں 14 روزہ دھرنا دیا گیا۔
جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو کی جانے والی کیپیسیٹی پیمنٹس پاکستانیوں کو سستی بجلی ملنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جو بجلی بن ہی نہیں رہی اس کے لیے بھی اربوں روپے چند اداروں کو ادا کیے جا رہے ہیں۔

اس معاملے کو اب کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ حکومت نے بیچ میں چند آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرنے کا اعلان کیا تو بتایا کہ اس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کی بڑی بچت ہو گی۔ ان اقدامات کے باوجود مہنگی بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں آ سکی ہے۔
وفاقی وزیربرائے توانائی اویس خان لغاری بھی وقتاً فوقتاً پریس کانفرنسزمیں ’خؤاہش‘ ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کرتے پائے گئے ہیں کہ چند ہفتوں میں ‘خطے کی سستی ترین بجلی’ مہیا کریں گے۔
پاکستان میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بڑھتی قیمتیں عام صارف کو متاثر ہی نہیں کر رہیں بلکہ ملکی ترقی کا پہیہ بھی روکے ہوئے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ برس میں بجلی کی قیمت میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف جولائی 2023 سے اگست 2024 کے درمیان بجلی کی قیمتوں میں 14 مرتبہ اضافہ ہو چکا ہے۔
پاکستان میں بجلی کا سستا نہ ہونا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس میں مختلف عوامل کارفرما ہیں۔ پاکستان میں کل 45 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ ہماری ضرورت صرف 30 ہزار میگاواٹ ہے ۔ حیرت انگیز طور پہ پاکستان صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کر سکتا ہے کیوں کہ اس سے زیادہ ہمارا ٹرانسمیشن نظام بجلی ترسیل نہیں کرتا۔
1984میں پیدا ہونے والی کل بجلی کا 22.8فیصد مختلف وجوہات کی بنا پر ضائع ہو جاتا تھا۔ حیران کن طورپر پہ 40 سال بعد بھی ہمارا بجلی کا نظام درست نہ ہو سکا اور آج بھی 16فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔

اس کی وجوہات میں سب سے پہلے حکومتوں کی ناکام پالیسیاں ہیں۔ 1994 میں پہلی مرتبہ حکومت کی جانب سے نجی شعبے کو بجلی بنانے اور حکومت کو فروحت کرنے کے لیے آمادہ کیا گیا جسے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کا نام دیا گیا۔
مزید پڑھیں: بجلی سستی کرنے کے حکومتی دعوے مگر پاکستانیوں کے بجلی کے بل کم کیوں نہیں ہو رہے؟
آئی پی پیز اور حکومت کے مابین معاہدے میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ چاہے آئی پی پیز کی بنائی ہوئی بجلی استعمال ہو یا نہ ہو، حکومت مکمل قیمت ادا کرے گی۔ اس وقت ملک میں 90 نجی بجلی گھر کام کر رہے ہیں جو 24،958 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں،جبکہ ”11 سے 14ہزار ”میگاواٹ بجلی آبی ذرائع سے بنتی ہے۔ تین ہزار میگاواٹ بجلی ایٹمی بجلی گھروں اور اتنی ہی شمسی توانائی کے بجلی گھروں میں بنتی ہے۔
ان میں سے تو کچھ ایسے آئی پی پیز بھی ہیں جن کو’مفت‘ میں منافع ادا کیا گیا، کچھ آئی پی پیز تو ایسے بھی ہیں جن کے مالک حکمران پارٹی کے سیاستدان بھی ہیں۔
پاکستانی یہ بجلی استعمال نہیں کرتے مگر وہ کیپسٹی رقوم کے ذریعے اس بجلی کی ادائیگی ضرور کرتے ہیں۔ فی کلو واٹ گھنٹہ بجلی کی قیمت 48 روپے میں سے 24 روپے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں آئی پی پیز کو جاتی ہے۔
پاکستان میٹرز سے گفتگومیں سابق نگران مشیرِ خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا تھاکہ پاکستان میں بجلی کے سستا ہونے کےدور دور تک آثار نہیں۔ جس کی وجہ بجلی کا مہنگے داموں بننا ہے۔
’حکومت کی طرف سے بجلی کے بلوں میں ابھی تک عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیاگیا۔آئی پی پیز سےمہنگے داموں پر بجلی بنانے کے معاہدے کیے گئے ہیں اور بےجا لگائے گئے ٹیکسز کی وجہ سے بجلی بلوں میں ریلیف نہیں دیا جاسکتا‘۔
بجلی کے معاملہ پر ہونے والے احتجاج کے بعد جب حکومت نے بجلی سستی کرنے پر اتفاق کیا تو فریقین کے درمیان باقاعدہ معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدہ کو طے کرنے والے افراد میں ایک جماعت اسلامی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری سید فراست علی شاہ بھی تھے۔

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک عرصے سے ملکی حالات خراب ہیں جس کی وجہ حکومتی اداروں کا ’ڈنگ ٹپاؤ‘ پالیسی اپنانا ہے۔ مختصر مدتی پالیسی کو اپنانے سے مسائل کا مستقل حل نہیں نکلتا اور پھر کسی میں دو روپے کم کردیے تو کسی میں تین روپے بڑھا دیے جیسے ریلیف دیے جاتے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کےگزشتہ اسلام آباد دھرنے میں حکومت نے مذاکرات کرکے کہ معاہدہ طے کیا تھا کہ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کو ختم کرکے عوام کو ریلیف دیاجائے گا۔ اس بات کو تقریباً چھ ماہ گزرچکے ہیں مگر ابھی تک بجلی سستی نہیں ہوئی۔
اسی معاہدہ کے تحت حکومت نے آئی پی پیز اور کپیسٹی رقم کے معاملے کی چھان بین کرنے کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دی۔ جس نے حکومت کو مشورہ دیا کہ معاہدوں میں کیپسٹی پیمنٹ کو ختم کیا جائے۔
سلمان شاہ کے مطابق “ہم نے ایک ایسے ملک میں جہاں ایکسپورٹ کچھ خاص نہیں ہوتا وہاں بجلی امپورٹ کردی ہے ۔”
بجلی مہنگی ہونے کی ایک بڑی وجہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور موجودہ برسوں میں سود کی شرح بلند ہونا ہے۔
کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ آئی پی پیز سے زیادہ بڑے مسائل ٹرانسمیشن لائنز میں خرابی اور ٹیکسوں میں بے دریغ اضافہ ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کے پاس ڈیم تھے جو بجلی کی ضروریات کے لیے کافی تھے جس کی وجہ سے دنیا میں سب سے سستی بجلی پاکستان میں ہوتی تھی اورموجودہ وقت میں سب سے مہنگی پاکستان میں مل رہی ہے۔
“بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر کالا باغ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا مگر ڈیم میں رکاوٹوں کے سبب امپورٹڈ ایندھن سے بجلی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ معاہدوں میں جو بجلی سستی دے گا اس سے لی جائے گی تک کا نہیں کہا گیا۔”
مہنگی بجلی سے بچنے کے حوالے سے ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہاکہ ملک میں سولر پاور سے بننے والی بجلی سستی ہے، اس کے لیے اقدامات کئے جائیں تاکہ رات کو بھی میسر رہے اور پاکستان کو پاور مارکیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔

ڈپٹی سیکرٹری جماعت اسلامی فراست شاہ کہتے ہیں کہ مہنگی بجلی پر بظاہر حکومت سنجیدہ دکھائی دیتی اور چاہتی ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے مگر حکومت کی ڈور کہیں اور بندھی ہوئی ہے اور وہ لوگ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔
رہنما جماعتِ اسلامی کا کہنا تھا کہ ماضی میں کیے گئے معاہدوں کو بڑے پیمانے پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، سرمایہ کاروں کی بجائے عام لوگوں کو ریلیف دینا حکومت کا اولین فرض ہونا چاہیے۔
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور کے شہری نے کہا کہ ’ حکومت وعدے کرنے کے باوجود بجلی سستی کیوں نہیں کررہی؟ بجلی مہنگی ہونے سے سب کچھ مہنگا ہے‘۔
بجلی بلز سے تنگ لاہور مظاہرے میں شریک ایک بزرگ شہری، جنہوں نے ’ بجلی کی قیمتیں کم کرو، بجلی چوری ختم کرو‘ کا پوسٹر اٹھا رکھا تھا کہا کہ ’ ارکان اسمبلی کی تو تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں عوام کی بڑھائیں‘۔
ایک اور شہری نے کہا کہ ’ حکومت عوام کا حق نہیں دے سکتی تو حکمرانوں کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں‘ عوام میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے اور’اعلان بغاوت‘ کے منتظر ہیں۔
راولپنڈی میں دھرنے کو ختم ہوئے تقریباً 6 ماہ گزرگئے، حکومت کی طرف سے کیے گئے وعدے ابھی تک وفا نہیں ہوئے۔ اگر حکومت بجلی کی ترسیل کے نظام کو بہتر بنائے، آئی پی پیز سے بہتر معاہدے کرے اور بجلی چوری جیسے جرائم کا سدِباب کرے تو بجلی سستی ہو سکتی ہے۔ حکومت ’سنجیدگی‘ سے نظر آرہا ہے کہ حکومت کوایک اور دھرنے کا انتظار ہے۔