Follw Us on:

’یہاں صرف ملبے کے ڈھیر ہیں‘ غزہ لوٹنے والا کا دل ٹوٹ گیا

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Ghaza distroyed

خمس اور احمد امامراہ نے جان لیا تھا کہ شمالی غزہ میں اپنے گھر واپس آ کر انہیں زیادہ سے زیادہ ملبہ ہی ملے گا۔ لیکن وہ پھر بھی واپس آئے کیونکہ ان کے والد اور بھائی ایک سال گزر جانے کے باوجود ملبے میں دفن ہیں۔

غزہ شہر کے الشجاعیہ محلے میں کھڑے ہو کر خمس امامراہ نے کہا “جب میں یہاں واپس آیا تو میرا دل ٹوٹ گیا، میں واپس صرف اپنے والد اور بھائی کو ڈھونڈنے آیا ہوں۔ مجھے کچھ اور نہیں چاہیے میرا بس ایک ہی سوال ہے کہ مجھے اپنے والد اور بھائی کہاں ملیں گے، بس یہی ہے، بس یہی۔”

یہ لمحہ ان کے لیے اتنا دل دہلا دینے والا تھا کہ وہ اس ملبے کے ڈھیر میں اپنی ماں کی سبز رنگ کی بنائی ہوئی ٹوکری تلاش کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے رکے۔

انہوں نے کہا “وہ بُنائی پسند کرتی تھیں، اون کے ساتھ کام کرتی تھیں۔ خدا میری ماں کی مغفرت کرے، وہ کہانیاں سناتی تھیں۔”

ان کی ماں اسرائیلی حملے میں زخمی ہو گئی تھیں اور انہیں علاج کے لیے مصر منتقل کر دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے اسرائیل نے رفاہ کراسنگ بند کر دی تھی جس کی وجہ سے صرف چند فلسطینیوں کو ہی علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت ملی۔

امامراہ نے ایک خبر رساں ادارے سی این این کو بتایا کے غزہ کا بیشتر حصہ اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 69 فیصد تعمیرات مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔

شمالی غزہ کے رہائشیوں کو جنگ کے آغاز میں ہی جنوبی علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور جب وہ علاقے خالی ہو گئے تو واپسی ممکن نہ رہی۔

ان میں سے زیادہ تر لوگ ایک سال سے زائد عرصے بعد واپس آ رہے ہیں اور ان کے سامنے ایسی تباہی ہے کہ جس کا تصور کرنا بھی ناممکن تھا۔

خمس اور احمد امامراہ نے 11 کلومیٹر کا سفر طے کیا تاکہ وہ الشجاعیہ واپس پہنچ سکیں، مگر راستہ انتہائی دشوار تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ سفر اتنا مشکل تھا کہ راستے میں ملبے اور گندے پانی کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ کئی جگہوں پر انسانی لاشوں کو بھی نہ اٹھایا گیا تھا اور کچھ لاشیں ابھی بھی وہیں پڑی ہوئی ہیں۔”

اس وقت شمالی غزہ کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ اس علاقے میں کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور کوئی امدادی کیمپ نہیں ہے، جبکہ امدادی اداروں کو یہاں مدد فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

شمالی غزہ کے مقامی اسپتال کے سربراہ ‘محمد صالح’ نے کہا کہ “یہاں کوئی بھی جگہ پناہ گزینی کے لیے دستیاب نہیں ہے، یہاں صرف ملبے کے ڈھیر ہیں، اور لوگ اپنے گھروں کی مرمت کی کوشش کر رہے ہیں، مگر صورتحال انتہائی سنگین ہے۔”

کئی افراد جنہوں نے شمالی غزہ واپس جانے کا ارادہ کیا تھا، وہ اسی تباہی کے بعد واپس جنوبی پناہ گاہوں میں آ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک اروا ال مسری نے بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد نے واپس جانے کا فیصلہ کیا، مگر جب وہ واپس گئے تو انہیں اپنی بربادی کے سوا کچھ بھی نہ ملا۔

اس نے کہا کہ “یہاں زندگی نہیں ہے، ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔ میرے بھائی کو پانی کے لیے جابلیہ جانا پڑا، اور پھر وہ غزہ شہر جا کر ہمیں بتا رہے تھے کہ ابھی واپس مت آنا۔”

کچھ بھی باقی نہیں بچا، خمس اور احمد امامراہ کے خاندان میں 60 افراد تھے جن میں سے صرف 11 بچ پائے ہیں۔

احمد امامراہ نے بتایا کہ “میری بیٹی 45 دن تک آئی سی یو میں رہی، اور میرا چھوٹا بیٹا آج بھی اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکا کہ اس نے اپنی ماں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔”

یہ تباہی ان کے لیے ایک اور سانحے کی شکل میں آئی، خمس نے بتایا کہ “ہم بہت خوش تھے، میں نے اس بچی کے لیے بہت انتظار کیا تھا، جبکہ وہ اور میری بیوی ایک ساتھ مارے گئے۔”

حتیٰ کہ جب وہ اپنے ان پیاروں کی قبروں کی زیارت کے لیے گئے، تو ان کی قبریں بھی اسرائیلی فورسز نے مٹا دیں تھیں۔ “انہوں نے ہماری قبریں بھی مسمار کر دیں، کچھ بھی نہیں چھوڑا۔”

خمس امامراہ نے کہا کہ “ہم واپس شمالی غزہ آئے ہیں لیکن کچھ بھی نہیں پایا۔ یہ سب کچھ ملبہ ہے، اور ہم پھر بھی یہاں ہیں کیونکہ ہم غزہ سے ہیں، ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ اگر زندگی اتنی مشکل بھی ہو، ہم غزہ میں ہی رہیں گے، ہم اس زمین کو نہیں چھوڑیں گے، یہ ہمارے آبا کی زمین ہے، اور ہم یہاں رہیں گے۔”

خمس کے الفاظ ایک گہری حقیقت کو عیاں کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں “یہ زمین ہمارے آبا کی ہے، ہم کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ ہمارے والد، دادا، اور بھائی یہاں دفن ہیں ہم اس جگہ کو نہیں چھوڑ سکتے۔”

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس