امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرین لینڈ حاصل کرنے اور پاناما کینال پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش آرکٹک اور لاطینی امریکہ میں چین کی سرگرمیوں اور اثرورسوخ کے بڑھتے ہوئے خدشات کی وجہ سے ہے اور یہ قومی سلامتی کے جائز مفادات کے تحت ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے حال ہی میں یہ دعویٰ کیا کہ پاناما کینال پر امریکی اختیار دوبارہ حاصل کرنا اور گرین لینڈ کو اپنے زیرنگیں لانا، چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔
روبیو نے ان دعووں کی حمایت میں کہا کہ یہ تمام اقدامات امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں ہیں اور انہیں کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاناما کینال، جو امریکی تاریخ کا ایک سنگ میل ہے، ایک وقت میں امریکا کی ملکیت تھی لیکن 1999 میں پاناما کے حوالے کر دی گئی تھی۔
اب امریکا کے سامنے یہ چیلنج ہے کہ چین اس علاقے میں بڑھتی ہوئی اکانومک سرگرمیاں شروع کر چکا ہے جس سے امریکی مفادات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

فائل فوٹو / گوگل
روبیو کا کہنا ہے کہ “چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی خاص طور پر پاناما کینال میں امریکی جہازوں کی آمدورفت اور عالمی تجارتی راستوں پر اثر ڈال سکتی ہے”۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین نے اس کینال کے دونوں سروں پر بندرگاہوں اور انفراسٹرکچر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے جس سے امریکی مفادات پر سنجیدہ خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
پاناما کینال کا معاملہ تو ایک طرف، روبیو نے اس بات کو بھی اُجاگر کیا کہ چین کی نظر گرین لینڈ پر بھی ہے۔
گرین لینڈ، جو ڈنمارک کا حصہ ہے امریکی آرکٹک پالیسی کے لیے ایک انتہائی اہم مقام بن چکا ہے۔ روبیو کا کہنا ہے کہ چین یہاں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر امریکا نے اس کی مخالفت نہ کی تو چین اس علاقے کو اپنے اکانومک اور ملٹری مفادات کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
گرین لینڈ کے بارے میں روبیو کا موقف تھا کہ “چین وہاں اپنے اثرات بڑھا رہا ہے اور امریکا کے لیے ضروری ہے کہ وہ وہاں اپنی موجودگی مضبوط کرے”۔

فائل فوٹو / گوگل
انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اگر امریکا نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو چین اس علاقے میں اہمیت حاصل کر سکتا ہے جو کہ نہ صرف امریکا کے لیے خطرہ بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔
یہ تمام مسائل امریکا اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے عالمی مقابلے کے ایک حصے کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ چین کا عالمی سطح پر اثر و رسوخ روز بروز بڑھ رہا ہے اور امریکا، روبیو کی قیادت میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دے رہا ہے۔
روبیو نے اس بات پر زور دیا کہ امریکا کو ان دونوں اہم مقامات پر دوبارہ اپنی پوزیشن مستحکم کرنی چاہیے تاکہ عالمی تجارتی راستے اور امریکی سلامتی محفوظ رہ سکیں۔
پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے روبیو کے دورے سے قبل واضح طور پر کہا کہ پاناما کینال پر امریکا کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔
ملینو کا کہنا تھا کہ “نہر پاناما کی ملکیت ہے اور اس پر کسی بھی قسم کی بات چیت غیر ممکن ہے”۔ یہ بات چیت اس وقت کی جا رہی ہے جب امریکا اور پاناما کے درمیان چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے شدید اختلافات سامنے آ چکے ہیں۔
روبیو نے اس حوالے سے کہا کہ چین کی جانب سے پاناما کینال کے اہم مقامات پر سرمایہ کاری سے امریکا کو تحفظات ہیں کیونکہ یہ چینی کمپنیاں بیجنگ حکومت کے زیر اثر ہو سکتی ہیں اور کسی عالمی تنازع کی صورت میں وہ امریکا کے لیے نہر کو بند کرنے کے لیے حکم دے سکتی ہیں۔ روبیو نے کہا کہ “اگر چین نے ایسا کیا تو یہ ایک براہ راست خطرہ بن جائے گا”۔

فائل فوٹو / گوگل
اس کے ساتھ ہی امریکا کی جانب سے گرین لینڈ کے بارے میں بھی ایک زبردست بیان سامنے آیا ہے۔ روبیو نے کہا کہ “ڈنمارک گرین لینڈ کی حفاظت نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ چین کے بڑھتے اثرات کو روک سکتا ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نیٹو کے دفاعی معاہدے کے تحت گرین لینڈ میں اپنی موجودگی کو مزید مستحکم کرے تاکہ عالمی طاقتوں کے درمیان جغرافیائی سیاسی کشمکش میں امریکہ کا مفاد محفوظ رہ سکے۔
چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے اور یہ خدشات روبیو اور ٹرمپ کی قیادت میں مزید سنجیدہ ہو چکے ہیں۔
پاناما کینال اور گرین لینڈ جیسے اہم جغرافیائی مقامات پر امریکی مفادات کی جنگ اب ایک عالمی سیاست کا حصہ بن چکی ہے جو چین کی بڑھتی طاقت کے خلاف امریکی حکمت عملی کو واضح طور پر سامنے لاتی ہے۔
پاناما میں روبیو کا دورہ ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا کیونکہ اس دوران امریکا اور پاناما کے درمیان نہ صرف اکانومک بلکہ دفاعی امور پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
امریکی وزیر خارجہ روبیو کے مطابق “یہ دورہ پاناما کینال کی حفاظت کے حوالے سے ایک مضبوط پیغام دینے کے لیے ہے، کیونکہ چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے سامنے امریکی مفادات کو مزید مستحکم کرنا ضروری ہے”۔
یہ جنگ نہ صرف سیاسی، بلکہ اقتصادی اور دفاعی بھی ہے جو عالمی سطح پر ایک نیا محاذ کھول رہی ہے جس کا اثر دنیا بھر پر پڑ سکتا ہے۔