پاکستان، ایک ایسا ملک جو توانائی کے بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک طرف حکومت کے دعوے اور وعدے، اور دوسری طرف عوام بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
الیکشن 2024 کے دوران ہر سیاسی جماعت نے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے وعدے کیے۔ حکومتی شخصیات کے بیانات کو یاد کریں تو کہا کچھ تھا، کیا کچھ اور۔
سندھ میں اکثریت رکھنے والے حکومتی اتحادی بلاول بھٹو اور وزیر اعلی پنجاب مریم نواز دونوں نے 200 اور 300 یونٹ تک بجلی میں سبسڈی دینے کا اعلان کیا مگر پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں ابھی بھی3 سے 4 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ اسی طرح سندھ میں بھی بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک اور بیان میں کہا گیا کہ ہم بجلی کی قیمتوں میں 50 روپے تک کمی کریں گے۔
عوام کو سستی اور معیاری بجلی فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔
لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ دعوے صرف دعوے ہی رہ گئے، اور عوام کو بجلی کے بلوں کی شکل میں نئے ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے بجلی کے بل میں اصل بجلی کے استعمال سے زیادہ ٹیکس شامل ہیں؟عوام طرح طرح کے ٹیکسز دے رہے ہیں ۔یہ سب ٹیکس عوام کو اس بجلی کے لیے ادا کرنے پڑتے ہیں، جو وہ استعمال ہی نہیں کرتے۔
جب عوام غربت اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، حکومت اپنے مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کر رہی ہے، صرف 2024 میں حکومتی وزراء کی تنخواہوں میں 35% اضافہ ہوا۔ حتیٰ کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں کئی گنا بڑھا دی گئی ہیں۔

سرکاری افسران کو مفت بجلی، گاڑیاں، اور دیگر مراعات دی جا رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میں وزراء کے سفر اور دیگر اخراجات کے لیے اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب عوام اپنے بجلی کے بل تک ادا کرنے کے قابل نہیں۔”
عوام بجلی کے بل بھرنے کے لیے اپنے زیورات اور زمینیں بیچ رہے ہیں، جبکہ حکومتی نمائندے سرکاری مراعات کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ کیا یہ عوامی خدمت ہے؟۔پاکستان میں بجلی کا بحران صرف ٹیکسوں یا مہنگائی کا مسئلہ نہیں۔ یہ ایک نظامی خرابی ہے، جہاں بجلی کی ترسیل کا نظام ناقص ہے۔
آئی پی پیز کے خفیہ معاہدے عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔
کپیسٹی پیمنٹ کے تحت عوام اس بجلی کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو وہ استعمال نہیں کرتے۔گزشتہ سال بجلی کے بلوں کی وجہ سے 18 افراد نے اپنی زندگیاں ختم کر لیں۔ یہ محض اعدادوشمار نہیں، بلکہ ہر موت کے پیچھے ایک کہانی ہے۔کچھ ماہرین کے مطابق حکومت اگر چاہے تو اس بحران کو حل کر سکتی ہے۔
یہ وقت ہے کہ عوام کے لیے فیصلے کیے جائیں، نہ کہ نجی کمپنیوں کے مفادات کے لیے۔ کیا حکومت اپنے وعدے پورے کرے گی، یا عوام مزید قربانیاں دیں گے؟