مصر کے علاقے وادی یہمب کے ایک دور دراز گاؤں میں ہونے والا ایک غیر متوقع واقعہ، ماہرین کو حیرت میں مبتلا کرگیا ہے۔ اس گاؤں کے رہائشیوں نے اپنی مویشیوں کو بچانے کے لیے ایک جانی دشمن کو پکڑ کر مار ڈالا۔
یہ دشمن کوئی اور نہیں بلکہ وہ جانور تھا جس کا نام آج سے 5000 سال پہلے مصر سے معدوم ہو چکا تھا، یہ ہائینا گاؤں میں موجود دو بکریوں کو مار کر فرار ہو گیا تھا، اور مقامی لوگ اپنی مویشیوں کو بچانے کے لیے پک اپ ٹرک میں اس کا پیچھا کرتے ہوئے اسے آخرکار ہلاک کر دیا۔
جب عبدالله ناجی، جو کہ قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی میں جانوروں کے ماہر ہیں ان کو اس واقعے کی ویڈیو ملی تو وہ اس پر یقین نہیں کر پائے۔
انہوں نے اپنے دوست سے مذاق سمجھا اور کہا “یہ کہاں ہو رہا ہے؟ یہ جانور تو ہمارے ملک میں موجود ہی نہیں ہے کیا تم نے سوڈان میں جا کر کچھ ایسا دیکھ لیا ہے؟”
بعد ازاں جب مزید تصاویر موصول ہوئیں تو یہ انکشاف ہوا کہ یہ ایک اسپوٹڈ ہائینا تھا، جو مصر کے جنوبی سرحد کے قریب سوڈان کے علاقے سے تقریباً 300 میل دور تک آ پہنچا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسپوٹڈ ہائینا کا مصر میں 5000 سال بعد آنا ایک نیا ریکارڈ ہے۔
اس سے پہلے مصر میں صرف دو دوسرے قسم کے ہائینا ملتے تھے یعنی اسٹرائپڈ ہائینا اور آرڈ ولف، مگر اسپوٹڈ ہائینا اس ملک سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو چکا تھا۔
اس جانور کا مصر میں دوبارہ آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ماحول میں تبدیلیاں آ چکی ہیں جو اس کے لیے رہنے کے قابل بناتی ہیں۔
ڈاکٹر ناجی اور ان کے ساتھیوں نے اس واقعے کے بارے میں تحقیقی مقالہ مملیہ (Mammalia) نامی جریدے میں شائع کیا ہے۔ جب ڈاکٹر ناجی نے اس کا پہلا ویڈیو دیکھا، تو وہ حیران کن طور پر اس کو جھوٹ سمجھ بیٹھے۔لیکن جب مزید تصویری شواہد سامنے آئے، تو انہوں نے اپنے ذہن میں حقیقت کو تسلیم کیا۔
اسپوٹڈ ہائینا کو اکثر مردار کھانے والا سمجھا جاتا ہے، لیکن در حقیقت یہ زیادہ تر شکار خود ہی کرتے ہیں۔ یہ جانور ایک پیچیدہ سماجی ڈھانچے میں رہتے ہیں جسے کلین کہا جاتا ہے، جو کہ ممالیہ کے کچھ جانداروں کی طرح ہے، جیسے کہ بندر۔
ان کا گروہ زیادہ تر قوتِ ارادی کی بدولت اپنی بقاء کے لیے مختلف حالات میں جیت جاتا ہے۔
ہائینا کی ماہر ‘ڈاکٹر کرسٹین وِلکنسن’ نے کہا کہ اسپوٹڈ ہائینا انتہائی لچکدار جانور ہے اور وہ کسی بھی ماحول میں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ جانور دراصل افریقی علاقے میں بڑے شکاریوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہو رہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی ایڈاپٹیو صلاحیت ہے۔
ڈاکٹر ناجی اور ان کے ساتھیوں نے اس معاملے کی تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ اس علاقے میں حالیہ برسوں میں بارشوں کی کمی اور خشکی کا دور ختم ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں اس علاقے میں نباتات کی بڑھوتری ہوئی ہے، اور اب یہاں گزالوں جیسے جانداروں کی تعداد بڑھ گئی ہے، جو اسپوٹڈ ہائینا کے لیے شکار کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
یہ واقعہ ایک تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ جہاں ایک طرف ہائینا نے اپنے قدرتی ماحول میں واپس آنا شروع کیا ہے، وہیں دوسری طرف انسانوں کے ساتھ تنازعات کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔
جب ہائینا مویشیوں کو شکار کرتے ہیں تو مقامی افراد ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں کیونکہ ان کے لیے اپنے جانوروں کی حفاظت زیادہ ضروری ہوتی ہے۔
ڈاکٹر وِلکنسن نے کہا کہ “جب ہائینا مویشیوں کو مارے تو لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے مال کی حفاظت کے لیے انہیں مارنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اور اس کا حل نکالنا بہت ضروری ہے۔“
اگرچہ اس اسپوٹڈ ہائینا کی مصر میں واپسی کا اختتام قتل پر ہوا، لیکن اس کا جسم اب بھی علم و تحقیق کا ذریعہ بنے گا۔
ڈاکٹر ناجی نے گاؤں کے لوگوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اس جانور کو دفن کر دیں تاکہ اس کی لاش کا مطالعہ کیا جا سکے۔
وہ آئندہ ماہ گاؤں کا دورہ کر کے اس ہائینا کی ہڈیوں کو اپنے یونیورسٹی کے میوزیم میں لے جائیں گے تاکہ اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکیں۔
یہ واقعہ صرف مصر کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک سبق ہے کہ قدرتی ماحول میں ہونے والی تبدیلیاں کس طرح جانداروں کو نئے علاقوں کی طرف کھینچ لاتی ہیں اور کس طرح انسان اور جانوروں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ماحولیات کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن سکتی ہے۔