Follw Us on:

مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی نوجوانوں کی وطن واپسی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
کشتی ڈوبنے کے مناظر فائل فوٹو/ گوگل

مراکش کے ساحل پر 16 جنوری کو پیش آنے والا سانحہ ایک خوفناک داستان بن کر سامنے آیا ہے۔ ایک کشتی جو 2 جنوری کو موریتانیا سے اسپین جانے کے لیے روانہ ہوئی تھی بحیرۂ روم کی گہرائیوں میں ڈوب کر 86 تارکین وطن کی زندگیوں کو لے گئی۔

اس کشتی میں 66 پاکستانی بھی سوار تھے جن میں سے آٹھ نے معجزاتی طور پر جان بچا لی۔ یہ لوگ اسلام آباد کی پرواز QR614 کے ذریعے وطن واپس پہنچے لیکن ان کے ساتھ ایک دردناک کہانی بھی تھی۔

ان افراد کی عمریں 21 سے 41 سال کے درمیان تھیں اور ان کا تعلق پاکستان کے مختلف شہروں سے تھا جیسے کہ شیخوپورہ، سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین، گجرات، اور جہلم۔

مزید پڑھیں: پندرہ ماہ کی جنگ نے غزہ کو کس طرح تباہ کیا، بحالی میں کتنا وقت درکار؟

یہ لوگ ایک خواب کی تکمیل کے لیے غیر قانونی طور پر اسپین پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ ایک ایسے سفر پر روانہ ہوئے جس میں انسانی اسمگلرز نے انہیں نہ صرف دھوکہ دیا بلکہ ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔

حکام کے مطابق ان افراد نے اسپین جانے کے لیے بھاری رقم انسانی اسمگلرز کو دی تھی۔ اسمگلر ان لوگوں کو پہلے دبئی لے گئے پھر ایتھوپیا اور سینیگال کے راستوں سے اسپین روانہ کرنے کے لیے ایک خطرناک کشتی میں سوار کیا۔

یہ کشتی جو سینیگال سے اسپین کی طرف بڑھ رہی تھی ایک ایسی بھیانک شام کی علامت بن گئی جب وہ مراکش کے ساحل کے قریب غرق ہو گئی۔

کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی نوجوان
فائل فوٹو/گوگل

دھند اور طوفان میں ڈوبتی ہوئی کشتی اور اس پر سوار 86 افراد میں سے صرف 36 بچ پائے۔ ان میں سے آٹھ پاکستانیوں نے اپنے جانیں بچانے کی ایک شدید جدوجہد کے بعد، کسی طرح مراکش کے ساحل تک پہنچ کر زندہ رہنے کا معجزہ کیا۔

بچ جانے والے افراد نے بتایا کہ اسمگلروں نے نہ صرف ان سے بھاری رقم وصول کی تھی بلکہ انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ جبکہ پاکستانی حکام نے اس سانحے کے بعد فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کیا۔

یہ بھی پڑھیں: چنگاری سے راکھ تک:لاس اینجلس میں کتنا نقصان ہوچکا؟

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے اس انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں جو پنجاب کے مختلف علاقوں میں کام کر رہا تھا۔

ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق اسمگلرز نے ان افراد کو انتہائی خطرناک راستوں پر روانہ کیا اور ان کی زندگیوں کو گہری مشکلات میں ڈال دیا۔

یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک نشاندہی ہے کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کس قدر مضبوط اور خطرناک ہیں۔

حکام نے پاکستانی شہریوں کو غیر قانونی ہجرت کے راستوں سے بچنے کی ہدایت کی ہے اور انہیں سرکاری سفارتخانوں کے ذریعے اپنے سفر کی تصدیق کرنے کی اپیل کی ہے۔

شہباز شریف دستخط کرتے ہوئے
فائل فوٹو/ گوگل

اس واقعے کے بعد وزیرِاعظم شہباز شریف  کی منظوری سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل احمد اسحاق جہانگیر کو انتظامی ناکامیوں کے باعث عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، کیونکہ انسانی اسمگلنگ کے معاملات میں ایف آئی اے کی سست ردعمل پر شدید تنقید کی جا رہی تھی۔

پاکستانی حکام اب اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سانحے کے بعد نہ صرف ان لوگوں کو انصاف ملے بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔

ضرور پڑٰھیں: ’یہاں صرف ملبے کے ڈھیر ہیں‘ غزہ لوٹنے والا کا دل ٹوٹ گیا

ان زندہ بچ جانے والوں کی کہانی ایک پیغام ہے کہ غیر قانونی ہجرت کبھی بھی سرفراز نہیں کرتی بلکہ انسان کو زندگی اور موت کے درمیان ایک خوفناک معرکے میں ڈال دیتی ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس