کراچی کے مئیر مرتضیٰ وہاب نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں آج یہاں ہوں لیکن یہ سب آسانی سے نہیں آیا۔ میری زندگی کی ایک کہانی ہے جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ میری زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں، میں سیدھا مئیر نہیں بن گیا۔
انہوں نے کہا میں جب نو سال کا تھا تو میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت میں بہت مایوس ہو سکتا تھا کہ میرے والد نہیں رہے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میں نے محنت کی اچھے اسکولوں میں پڑھا، کالج ختم کیا اور پھر یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی کوشش کی، لیکن وہاں بھی فیل ہوگیا۔
اس وقت بھی میں مایوس ہو سکتا تھا لیکن میں نے ہمت سے کام لیا، قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکیل بننے کا فیصلہ کیا۔
یاد ہے کہ میں جس یونیورسٹی میں جانا چاہتا تھا وہاں میرا داخلہ نہیں ہوا، جس سے میں مایوس ہو گیا تھا لیکن میری ماں نے مجھے سمجھایا کہ یہ زندگی کا حصہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے پھر قانون کے شعبے کو منتخب کیا اور یہاں تک پہنچا۔ ہمارے معاشرے میں لوگ عموماً اپنی ناکامیوں کو چھپاتے ہیں اور صرف کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: حکومت بجلی سستی کرنے میں ناکام: کیا حکمران ’اعلان بغاوت‘ کے منتظر ہیں؟
ہمیں اپنے ماضی پر فخر کرنا چاہیے چاہے ہم کہاں تھے اور آج کہاں ہیں۔ معاشرے میں بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے محنت سے اپنی زندگی بدل کر کامیابی حاصل کی ہے۔
اگر ہم یہ باتیں اپنے معاشرتی سطح پر شیئر کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بہت سے وزرا اور افسران ہیں جن کا پس منظر بہت سادہ تھا لیکن انہوں نے محنت سے کامیابی حاصل کی۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ میں خود جب لندن سے پڑھ کر واپس آیا تو میں نے سوچا تھا کہ وہاں سے آ کر بہت پیسہ کماؤں گا، لیکن میری پہلی نوکری میں صرف پانچ ہزار روپے تنخواہ ملی۔ تاہم، میری اصل حوصلہ افزائی یہ تھی کہ اگر مجھے زیادہ پیسہ کمانا ہے تو محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی۔
آج میں اس مقام پر ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ بھی اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔ آپ بھی میری طرح محنت کر کے وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں۔
ضرور پڑھیں:مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی نوجوانوں کی وطن واپسی