زمین کے ’گردے‘ خراب ہورہے ہیں اور انسان ان کے بچاؤ کی تدابیر سے غافل ہے، فضا کو صاف کرکے انسانوں کے پھیپھڑے بچانے والے ’ویٹ لینڈز‘ عدم توجہ کا شکار ہیں،ماہرین کہتے ہیں کہ ان کو بچانا ہے تو یہاں مچھلی کے شکار پر پابندی لگانی ہوگی ۔ویٹ لینڈز کس علاقے کو کہتے ہیں؟ ‘
ویٹ لینڈز وہ علاقے ہوتے ہیں جہاں زمین مستقل یا زیادہ تر وقت پانی میں ڈوبی رہتی ہے۔ یہ دلدلی علاقے، جھیلوں کے کنارے، دریائی ڈیلٹا، مینگرووز، اور دلدلی جنگلات جیسے قدرتی اور مصنوعی میٹھے یا کھارے پانی والے مقامات ہو سکتے ہیں۔
ویٹ لینڈز ماحول کے لیے نہایت اہم ہیں کیونکہ یہ قدرتی فلٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، پانی کو صاف کرتے ہیں، زمین کے کٹاؤ کو روکتے ہیں، ماحولیاتی توازن برقرار رکھتے ہیں اور جنگلی حیات کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔
ویٹ لینڈ کی زمین بہت زرخیز ہوتی ہے جس کی مٹی زراعت میں بہت معاون ہوتی ہے۔ یہ جانوروں اور ہجرتی پرندوں کا مسکن ہوتی ہیں۔ یہاں پر بہت سے درخت ہوتے ہیں ان پر پرندے اور جانور رہتے ہیں ،ان پانی کے ذخیروں میں آبی مخلوق بھی رہتی ہے۔
‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے جامعہ پنجاب شعبہ اسپیس سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب نےکہا کہ “ویٹ لینڈز کے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ مچھلی کے غیر قانونی شکار کو بند کیا جائے اور ویٹ لینڈز کے قریب رہنے والے لوگ ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لیں۔”
دنیا میں پہلی بار 2 فروری 2007 کو ورلڈ ویٹ لینڈ ڈے منایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے پوری دنیا میں 2 فروری کو یہ دن عالمی سطح پر منایا جاتا ہے تاکہ ان آب ویٹ لینڈز کو سکڑنے سے بچایا جائے۔
ویٹ لینڈ کو ‘زمینی گردے’ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ فطرت کے ایک اہم ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں، جو ہوا میں موجود کاربن کو جذب کر فضاء کو صاف رکھتے ہیں۔ ویٹ لینڈز نہ صرف فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں بلکہ یہ پانی کی صفائی، سیلاب کی روک تھام اور حیاتیاتی تنوع کی حفاظت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ ماحولیات کے پروفیسر اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ “ویٹ لینڈز کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر نقصان دہ گیسوں کو جذب کرکے فضائی آلودگی کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ پانی میں موجود آلودگی کو فلٹر کرکے اسے صاف کرتے ہیں اور شدید بارشوں کے دوران اضافی پانی کو سمو کر سیلاب کی شدت کو کم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مختلف انواع کی جانداروں کو مسکن فراہم کرکے حیاتیاتی تنوع کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔”
بین الاقوامی خبرارساں ادارے ‘ٹی آر ٹی’ کے مطابق پاکستان میں اس وقت کل 225 ویٹ لینڈز موجود ہیں، جو 78 ہزار ایکٹر پر پھیلے ہوئی ہیں جو کہ کل رقبے کا 9.7 فیصد حصہ بنتا ہے۔ لیکن ان کا تیزی سے سکڑنا انتہائی تشویشناک امر ہے۔
پاکستان میں دنیا کے اونچے ویٹ لینڈ بھی موجود ہیں جن میں کورمبر جھیل اور شاوشر جھیل شامل ہے۔ اس کے ساتھ دیگر قابل ذکر ویٹ لینڈز میں استولا آئی لینڈ، میانی ہور، جیوانی کوسٹل لائن، اومارہ بیچ ، حب ڈیم ، دریگ لیک، ہالے جی لیک، انڈس ڈیلٹا، کنجھر جھیل، رن آف کچھ، چشمہ بیراج، تونسہ بیراج، ہیڈ ورکس مرالہ، راول لیک، ہیڈ ورکس رسول، جبھو لاگون، نلتر اور لولوسار لاگون، ٹنڈا ڈیم اور کلر کہار نمایاں ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا ہے کہ “بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ویٹ لینڈز ڈی گریڈ ہو رہے ہیں۔ آلودگی اور دیگر قدرتی آفات کے بے جا اضافے سے ویٹ لینڈز کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔”
ویٹ لینڈز کو درپیش خطرات میں سے ایک بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور صنعتی ترقی ہے، جس کی وجہ سے زمین خشک ہو رہی ہے، آلودگی کی مقدار بڑھ رہی ہے اورپانی کی صفائی کی قدرتی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔
پروفیسر جہانزیب کا ماننا ہے کہ “موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں میں کمی، درجہ حرارت میں اضافے اور قدرتی آفات نے ویٹ لینڈز کو متاثر کردیا ہے۔ دوسری جانب ترقیاتی منصوبے ویٹ لینڈز کی تباہی میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں، بڑی بڑی فیکٹریاں اپنا گندا پانی ندی نالوں میں بہا دیتی ہیں جو کہ نہ صرف آبی حیات اور ویٹ لینڈز کے لیے نقصان کا باعث ہیں، بلکہ اس سے اگنے والی سبزیاں بھی مضرِ صحت ہوتی ہیں۔”
عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور موسم میں غیر متوقع تبدیلیاں ویٹ لینڈز کی بقاء کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ بلند درجہ حرارت اور خشک سالی کے باعث پانی کی سطح میں کمی آرہی ہے، جس سے ویٹ لینڈز کا ایکو سسٹم متاثر ہورہا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب کے مطابق “حکومت نے ویٹ لینڈز کے بچاؤ کے لیے کئی منصوبے اور قانون نافذ کیے ہیں، حکومت مختلف انجیوز کے ساتھ مل کر ویٹ لینڈز کی حفاظت کے لیے کام کررہی ہے۔”
ویٹ لینڈز کی اہمیت کو نظرانداز کرنا اور ان کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنا بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ لوگوں کی معلومات کی کمی اور قدرتی وسائل کے حوالے سے بے حسی ان کے تحفظ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
پروفیسر اعجاز احمد کے مطابق “ویٹ لینڈز کو نظرانداز کرنا ماحولیاتی تباہی کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ یہ سیلاب سے بچاؤ اور پانی کی صفائی میں مدد دیتے ہیں۔ حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو مل کر ان کے تحفظ کے لیے پالیسیاں بنانی چاہئیں اور عوام کو ورکشاپس اور سوشل میڈیا کے ذریعے شعور دینا چاہیے۔”
پاکستان میں اہم ویٹ لینڈز جیسے انڈس ڈیلٹا، ہالیجی جھیل اور چھنجی ویٹ لینڈز ماحولیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ ان قدرتی نظاموں میں آبی حیات کی کمی اور ماحولیاتی توازن کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
پروفیسر اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ “آبی حیات کی کمی اور ماحولیاتی توازن کی بگڑتی ہوئی صورتحال ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ماحولیاتی نظام کے عدم استحکام کا اشارہ ہے۔ آلودگی، غیر مستحکم ماہی گیری اور ویٹ لینڈز کی تباہی اس بحران کی بڑی وجوہات ہیں۔ فوری اقدامات کے بغیر، ہم اپنی آبی حیات اور قدرتی وسائل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔”
حکومت نے رامسر کنونشن کے تحت ان ویٹ لینڈز کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے ہیں، جبکہ غیر سرکاری تنظیمیں آلودگی کے خاتمے اور آگاہی پروگراموں پر کام کر رہی ہیں، مگر پانی کی کمی، آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل ان کی حفاظت میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

پروفیسر اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ “حکومت ویٹ لینڈز کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے جن میں ماحولیاتی قوانین کا نفاذ اور ویٹ لینڈز کی بحالی کے منصوبے شامل ہیں۔ تاہم ان کوششوں میں مالی وسائل کی کمی، عوامی آگاہی کی کمی، اور متعلقہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان جیسی مسائل درپیش ہیں۔ مؤثر نتائج کے لیے ان چیلنجز پر قابو پانا ضروری ہے۔”
غیر ملکی خبرارساں ادارے اسلامی جمہوریہ نیوز ایجنسی (ارنا) کے مطابق ایرانی برڈ کنزرویشن ایسوسی ایشن کے چیف ایمان ابراہیمی نے رامسر کنونشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے 64ویں اجلاس میں ینگ چیمپئن آف دی ورلڈ ویٹ لینڈزکا ایوارڈ جیتا۔ یہ ایوارڈ ان کو ویٹ لینڈ اور ویٹ لینڈ پرندوں کے تحفظ کے بارے میں عوامی بیداری بڑھانے کے لیے اقدامات کے اعتراف میں دیا گیا۔
پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب کے کا کہنا ہے کہ “حکومت مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر ویٹ لینڈز کے بچاؤ کے لیے کام تو کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کوڑا کرکٹ اور زہریلے کیمیکلز والے پانی کو ویٹ لینڈز کی بجائے کسی اور جگہ ڈالا جائے، بارشوں کے پانی کو اسٹور کیا جائے اور آرگینک کاشتکاری کی جائے۔”
ویٹ لینڈز ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے، آلودگی کم کرنے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم موسمیاتی تبدیلی، انسانی سرگرمیوں اور حکومتی عدم توجہی کے باعث یہ قدرتی خزانہ شدید خطرے سے دوچار ہے۔ ان کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات اور عوام کی آگاہی کے لیے مہمات ناگزیر ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں نہ صرف آبی حیات بلکہ انسانی زندگی بھی اس کے سنگین نتائج بھگت سکتی ہے۔ پائیدار ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے ان ‘زمینی گردوں’ کی بقا کو یقینی بنانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ قدم بڑھائیں اور اس تحفظ میں اپنا حصہ ڈالیں تاکہ آنے والی نسلوں کو صحت افزا ماحول مہیا کیا جا سکے۔