عرب وزرائے خارجہ نے امریکی صدر کے فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں بھیجنے کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔
عرب وزرائے خارجہ نے ہفتے کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مصر اور اردن سے غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو لینے کے مطالبے کے خلاف متفقہ موقف پیش کرتے ہوئے فلسطینیوں کو کسی بھی صورت میں ان کی سرزمین سے منتقل کرنے کو مسترد کر دیا۔
قاہرہ میں ہونے والے اجلاس کے بعد ایک مشترکہ بیان میں مصر، اردن، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ کے وزرائے خارجہ اور حکام نے کہا کہ اس طرح کے اقدام سے خطے میں استحکام کو خطرہ ہوگا ، تنازعات پھیلیں گے اور امن کے امکانات کو نقصان پہنچےگا۔
“مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ”ہم فلسطینیوں کے حقوق سے سمجھوتہ کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں، خواہ وہ آبادکاری کی سرگرمیاں ہوں ، زمینی انخلاء یا الحاق کے ذریعے مالکان سے زمین خالی کرنا “۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ دو ریاستی حل کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ میں ایک منصفانہ اور جامع امن کے حصول کے لیے ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنا چاپتے ہیں۔
یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب ٹرمپ نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ مصر اور اردن کو غزہ سے فلسطینیوں کو لے جانا چاہیے، جسے انہوں نے 15 ماہ کی اسرائیلی بمباری کے بعد مسمارشدہ جگہ قرار دیا تھا ۔جہاں 2.3 ملین افراد میں سے زیادہ تر کو بے گھر کر دیا تھا۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے بدھ کے روز اس خیال کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ “مصر غزہ کے لوگوں کی نقل مکانی میں سہولت فراہم کرے گا۔ مصری اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر نکلیں گے”۔
جمعرات کو ٹرمپ نے مصر اور اردن دونوں کے لیے فوجی امداد سمیت وافر امریکی امداد دینےکا اعلان کرتے ہوئے کہا “ہم ان کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں، اور وہ ہمارے لیے یہ کرنے جا رہے ہیں”۔
فلسطینی قیادت کے مطابق وہ علاقہ جسے ہم ایک آزاد ریاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں، وہاں سےنکلنے کی کوئی بھی تجویزپسند نہیں کی جائے گی۔ اکتوبر 2023 میں غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے پڑوسی عرب ریاستوں نے اسے بار بار مسترد کیا ہے۔
اردن پہلے ہی کئی ملین فلسطینیوں کا گھر ہے جبکہ ہزار وں مصر میں بھی رہتے ہیں۔ مصر اور اردن کی وزارت خارجہ نے حالیہ دنوں میں ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
عرب وزراء نے اقوام متحدہ کے ساتھ ایک عالمی کانفرنس منعقد کرنے کے مصر کے منصوبے کا بھی خیرمقدم کیا جس میں غزہ کی تعمیر نو پر توجہ دی جائے گی، جو اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ کی جنگ کے دوران زیادہ تر ویران ہے۔ کانفرنس کے لیے ابھی کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی۔