اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ کے تباہ کن اثرات کے بعد، جنوبی بیروت کا علاقہ حارة حریک دہیہ ایک نیا چیلنج درپیش تھا۔ اسرائیل کی فضائی حملوں نے اس علاقے کو شدید نقصان پہنچایا اور ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے۔
ان حملوں میں مقامی ریستورانوں کی عمارتیں اور تجارتی مراکز بھی تباہ ہو گئے تھے لیکن ایک ریستوران مالک احمد وہبے نے اپنے کاروبار کی دوبارہ بحالی کے لیے حیران کن عزم کا مظاہرہ کیا۔
احمد وہبے کا ریستوران “فرائز لیب” نومبر کے آخر میں اسرائیلی فضائی حملے میں مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔ وہ اپنے دوست کی اطلاع پر فوراً اس علاقے میں پہنچے جہاں صرف ملبہ نظر آ رہا تھا۔
اس دوران ان کے ذہن میں صرف ایک بات تھی “جب تک میری فیملی محفوظ ہے میں ہر صورت میں آگے بڑھوں گا۔”

فائل فوٹو
یہ ہی جذبہ تھا جس نے انہیں دوبارہ اپنے کاروبار کو دوبارہ شروع کرنے کی ہمت دی۔
جنگ کے خاتمے کے بعد 27 نومبر کو جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی دہیہ کے باشندوں نے اپنے گھروں کی مرمت کا کام شروع کیا۔کاروباری لوگ بھی اپنے اپنے ریستورانوں، دکانوں اور دفاتر کی مرمت میں مصروف ہوگئے۔
دوسری جانب حارت حریک کی گلیوں میں اب بھی مشہور ریستوران جیسے “فلافل خالدہ” اور “ال آغا” کی نیون لائٹس چمک رہی ہیں جو علاقے کی تباہی کے باوجود ایک امید کی کرن بن کر ابھر رہی ہیں۔
اگرچہ تمام ریستوران دوبارہ کھولنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، لیکن احمد وہبے جیسے کچھ کاروباری مالکان نے اپنی جدو جہد جاری رکھی اور چند مہینوں میں اپنے ریستوران کی دوبارہ بحالی میں کامیاب ہو گئے۔

ان کی محنت نے نہ صرف اپنے کاروبار کو بچایا بلکہ علاقے کے معاشی بحران کو بھی کم کرنے میں مدد دی۔
احمد وہبے نے کہا “یہ صرف میرے لیے نہیں، پورے علاقے کے لیے ایک پیغام ہے کہ ہم کسی بھی حال میں اپنے قدم پیچھے نہیں اٹھائیں گے۔ ہم دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے۔”
ان کی داستان ایک مثال بن گئی ہے کہ جنگ کے تباہ کن اثرات کے باوجود عزم، حوصلہ اور کمیونٹی کی طاقت سے کاروباری دنیا دوبارہ زندہ ہو سکتی ہے۔
دہیہ کا یہ تجارتی حوصلہ ایک نئی امید کی علامت بن چکا ہے، اور یہاں کے لوگ اب دوبارہ اپنے معمولات زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔