شام کے عبوری صدر احمد الشرع اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے ہیں جہاں ان کا استقبال ریاض کے نائب گورنر محمد بن عبد الرحمان بن عبد العزیز نے کیا۔ اس موقع پر احمد الشرع کے ساتھ شام کے عبوری وزیر خارجہ اسد الشیبانی بھی موجود تھے۔
سعودی عرب کا یہ دورہ احمد الشرع کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گا، کیونکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ان کی متوقع ملاقات شام کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
یہ دورہ اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ شام میں حالیہ دنوں میں ایک نیا سیاسی منظرنامہ ابھر کر سامنے آیا ہے جس نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
شام کے آئین کو منسوخ کرنے کے بعد احمد الشرع کو عبوری صدر منتخب کیا گیا ہے اور ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں ایک نیا سیاسی آغاز ہو چکا ہے۔ شام کی تاریخ میں یہ ایک انتہائی غیر متوقع اور دل دہلا دینے والا موڑ تھا۔
بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والی شامی باغی فورسز نے اس وقت کامیابی حاصل کی جب انہوں نے دمشق پر قبضہ کیا اور اس کے بعد بشار الاسد اور ان کے خاندان کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
یاد رہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد نئی شامی انتظامیہ کے ساتھ سعودی عرب کی جانب سے پہلا باضابطہ رابطہ کیا گیا تھا جس میں دو طرفہ تعلقات سمیت دیگر امور کو بہتر انداز سے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔

گوگل)(فائل فوٹو))
سعودی میڈیا کے مطابق سعودی شاہی مشیر کی قیادت میں وفد نے شام میں پیپلز پیلس میں نئی شامی انتظامیہ کے سربراہ احمد الشعر سے ملاقات کی تھی جس میں مستقبل میں تعلقات کو بہتر بنانے اور دیگر امور کو بہتر انداز سے آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
بشار الاسد کی حکومت کے بعد شامی عوام کے لیے یہ لمحہ ایک نیا عہد تھا، جس میں انہیں امید کی کرن نظر آنا شروع ہوئی۔
مزید پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے مغربی پٹی پر حملے، کئی عمارتیں منہدم، متعدد شہادتوں کا خدشہ
ماضی میں جب شام پر 5 دہائیوں تک بشار الاسد خاندان کی حکمرانی تھی ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا فقدان تھا اور عوام کو مسلسل ظلم و ستم کا سامنا تھا۔ مگر اس حالیہ تبدیلی نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور عالمی سیاست میں نئی صف بندیاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
شامی باغیوں نے جیت کی خوشی میں سرکاری ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ تمام قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں اور شام میں انتقامی کارروائیوں سے گریز کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔
احمد الشرع، جنہیں ابو محمد الجولانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وہ حیات تحریر الشام کے سربراہ ہیں، اور ان کی قیادت میں شامی باغیوں نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کے عبوری صدر منتخب ہونے کے بعد شام کی سیاست میں ایک نئی توانائی آ چکی ہے۔
احمد الشرع کا کہنا تھا کہ شام میں آئندہ انتخابات میں 4 سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے اس دوران ایک عبوری قانون ساز کونسل تشکیل دی جائے گی جو نئے آئین کی منظوری تک کام کرے گی۔
دوسری جانب احمد الشرع نے سعودی میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ سعودی عرب شام کے مستقبل میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

(گوگل/فائل فوٹو)
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے مواقعوں پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ سعودی عرب میں ہی پیدا ہوئے اور اپنے ابتدائی 7 برس وہاں گزارے ہیں۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ان کی ملاقات شام کی اکانومک ترقی اور سیاسی استحکام کے حوالے سے اہم ہو گی۔
یہ دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ سعودی عرب شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے اور شام کی معیشت کو دوبارہ نئی زندگی دینے کے لیے ممکنہ سرمایہ کاری کے دروازے کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔
شام میں جاری اس سیاسی تبدیلی نے نہ صرف خطے کی سیاست کو متاثر کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی کئی ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلیاں لائی ہیں۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں نیا سیاسی منظرنامہ تشکیل پا رہا ہے، جس کا اثر پورے مشرق وسطیٰ پر پڑ سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا احمد الشرع کے عبوری صدر بننے کے بعد شام میں کوئی بڑا سیاسی استحکام آ سکے گا؟ کیا سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اس تبدیلی کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ اور کیا شامی عوام کو آخرکار وہ آزادی اور ترقی ملے گی جس کا وہ طویل عرصے سے انتظار کر رہے ہیں؟
یہ تمام سوالات اس وقت پورے خطے میں اہمیت رکھتے ہیں اور یہ تیزی سے بدلتے حالات آنے والے دنوں میں ایک نیا سیاسی دھارا تشکیل دے سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سمجھ نہیں آتا جشن منائیں یا ماتم کریں’ شامی شہر حماۃ میں خوفناک قتل عام کے 43 برس