کیا آپ نے کبھی انصاف کی تمنا کی ہے؟ یہ سوال نورین فاطمہ نے دلوں کو چھو جانے والے انداز میں اپنے حلقے کے لوگوں سے پوچھا، جو اُس کے شوہر شفا الرحمان کی جیل میں قید ہونے کے باوجود انتخابی مہم میں حصہ لے رہے تھے۔
اس مہم کا مقصد صرف ایک سیٹ جیتنا نہیں، بلکہ وہ بدنامی کو مٹانا تھا جو ان کے شوہر اور کئی دوسرے مسلمانوں پر 2020 کے دہلی فسادات کے دوران چسپاں کی گئی تھی۔
نورین فاطمہ، 41 سالہ خاتون، اپنے بچوں کی واپسی کا انتظار کرتی ہیں۔ اُس کے شوہر، شفاء الرحمن، جو ایک انسانی حقوق کے کارکن ہیں، ان کو 2020 میں دہلی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا جب انہوں نے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے خلاف ہونے والی مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔
اس قانون کے مطابق، پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر مسلم اقلیتی افراد کو بھارتی شہریت حاصل کرنے میں تیز تر راہ دی گئی، لیکن مسلمانوں کے لیے یہ دروازے بند تھے۔

نورین فاطمہ نے اپنے حامیوں سے کہا کہ “میرے شوہر نے اس ملک کے عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، اور انہیں دہشت گرد بنا دیا گیا۔ اب ہم لوگوں کے سامنے اپنی معصومیت کا ثبوت دینے آئے ہیں۔ ہم جیت کر دکھائیں گے۔
شفا الرحمن اور طاہر حسین دونوں ہی اس وقت جیل میں ہیں اور دہلی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی اسلحہ: افغانستان کے بازاروں میں بکنے لگا
ان دونوں کے لیے یہ انتخابات محض سیاسی مقابلہ نہیں ہیں بلکہ یہ ان کے لیے ایک موقع ہے تاکہ وہ اپنی بے گناہی کا پرچار کر سکیں۔ جنہیں دہشت گرد اور فسادی گردانا گیا وہ اب عوام کے سامنے اپنے بے گناہ ہونے کا دعویٰ کرنے نکلے ہیں۔
اسد الدین اویسی جو اس وقت ہندوستان میں AIMIM پارٹی کے رہنما ہیں انہوں نے کہا ہے کہ “AAPاور BJP کی سیاست نے مسلمانوں کو توڑ دیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم متحد ہو کر اپنی آواز بلند کریں۔”
دوسری جانب جب دہلی کی سیاسی بساط پر اسد الدین اویسی نے ‘اروند کیجریوال’ کی حکومت کو نشانہ بنایا، تو وہ یہ بات واضح کر گئے کہ انتخابات میں صرف ایک سیٹ جیتنا مقصد نہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک اہم لڑائی ہے۔
اویسی نے کہا کہ “اوکھلا کی گلیوں میں قدم رکھتے ہوئے، کیجریوال صاحب کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ یہاں کے لوگ کس طرح زندگی گزار رہے ہیں، یہاں سے ہماری آواز سنیں”۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، مصطفی آباد کے علاقے میں شاداب حسین، جو کہ 19 سال کے ہیں، وہ اپنے والد طاہر حسین کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ ان کے والد کو 2020 کے فسادات کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
شاداب کی آنکھوں میں ایک عزم نظر آتا ہے اس نوجوان کا کہنا ہے کہ “میرے والد کو ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ ہم اس انتخابات میں ان کی بے گناہی ثابت کریں گے۔”
حالات ہر طرف سے ان پر تنگ ہیں، مگر ایک بات واضح ہے جب تک ان کے والد جیل میں ہیں، وہ خاموش نہیں رہیں گے۔

جیل میں قید رہ کر بھی رحمان اور حسین کے خاندانوں کی آوازیں دہلی کی گلیوں میں گونج رہی ہیں
رحمان، جیل میں قید ہوتے ہوئے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ “ہم ہمت نہیں ہاریں گے، نہ کبھی جھکیں گے کیونکہ ہماری آواز میں سچائی ہے۔”
دوسری جانب رحمان کی بیوی فاطمہ کا دل دُکھی ہے مگر اس کی آنکھوں میں ایک عزم کی جھلک بھی ہے۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ “میرے بچوں نے پانچ عیدیں، پانچ رمضان اپنے والد کے بغیر گزاریں، لیکن اب میں یہ برداشت نہیں کر سکتی۔”
فاطمہ نے مزید کہا کہ انتخابات کا نتیجہ نہ صرف اس کے شوہر کے مستقبل کا تعین کرے گا، بلکہ اس پورے خاندان کی عزت کا سوال ہے۔
اوکھلا میں جہاں فاطمہ کی مہم چل رہی ہے، وہ ایک غمگین حقیقت بھی سامنے آتی ہےوہ ہے بنیادی سہولتوں کی کمی۔
گلیوں میں گندہ پانی، کھچاکھچ سڑکیں، اور ٹوٹی ہوئی سیور لائنز ان مسائل میں شامل ہیں جنہیں رحمان کی بیوی، فاطمہ، بار بار اپنے خطاب میں دہراتی ہیں۔
عالمی خبررساں ادارے الجزیرہ کے مطابق نصرالدین شاہ، جو ایک مقامی دکاندار ہیں، اس نے فاطمہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا “ہم اس الیکشن میں صرف حکومت بنانے کے لیے نہیں، بلکہ اس تاریخ کو درست کرنے کے لیے ووٹ دے رہے ہیں، جس میں ہمارے لوگوں کو دہشت گرد اور فسادی کہا گیا۔”
دوسری جانب جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رہ کر شفاء الرحمان اور طاہر حسین نہ صرف اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں بلکہ ایک پورے طبقے کی عزت اور شناخت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ انتخاب ایک لڑائی ہے جس میں جیت یا ہار کا سوال نہیں بلکہ یہ ہے کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ختم کیا جائے، اور ان کی بے گناہی کو تسلیم کیا جائے۔
5 فروری کو دہلی کی گلیوں میں ہونے والے انتخابات کا نتیجہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔