برطانیہ کے سابق فوجی، ڈینیئل خلیفہ کو آج ویلوچ کراؤن کورٹ میں ایران کے لیے جاسوسی کرنے اور جیل سے فرار ہونے کے الزامات میں مجموعی طور پر 14 سال اور 3 ماہ کی سزا سنا دی گئی۔
خلیفہ کی سزا ایک انتہائی سنجیدہ مقدمے کا نتیجہ تھی جس میں نہ صرف اس کی فوجی حیثیت کا غلط استعمال کیا گیا بلکہ اس نے اپنی ذاتی خواہشات اور شہرت کے لئے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔
18 ماہ قبل، ڈینیئل خلیفہ نے برطانیہ بھر میں ایک ہنگامی تلاش کا آغاز کرایا تھا جب وہ وانڈز ورتھ جیل سے فرار ہو گیا تھا۔
اس کے بعد پولیس نے تین دن کے اندر اس کو مغربی لندن کے ایک ٹوپاتھ پر گرفتار کر لیا تھا، لیکن اس کی گرفتاری کے دوران سامنے آنے والے حقائق نے انکشاف کیا کہ اس کا جرم صرف جیل سے فرار تک محدود نہیں تھا۔
وہ دراصل ایران کے لیے حساس فوجی معلومات فراہم کر رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس کے پاس ایسی معلومات تھیں جو برطانوی فوج کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی تھیں۔
آج عدالت میں اس کے مقدمے کی آخری سماعت کے دوران جج جسٹس ‘چیما-گرب’ نے خلیفہ کو ‘ایک خطرناک بیوقوف’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی فوجی ذمہ داریوں کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ دشمن ریاست کو اہم معلومات فراہم کر کے برطانوی فوج کے اہلکاروں کو سنگین خطرات میں ڈالا۔
جج نے کہا کہ “جب آپ نے فوج میں شمولیت اختیار کی تھی تو آپ میں ایک بہترین سپاہی بننے کی صلاحیت تھی، لیکن آپ نے اپنی حماقتوں کے ذریعے اپنے وطن کے ساتھ غداری کی۔”

(گوگل )
خلیفہ کی کہانی ایک پیچیدہ سازش کا حصہ تھی۔ 23 سالہ خلیفہ نے 2017 میں برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس کا ارادہ تھا کہ وہ ایک مثالی سپاہی بنے گا۔
تاہم، اس کا طرز عمل جلد ہی ایک نیا رخ اختیار کر گیا۔ عدالت میں پیش کی گئی شہادتوں کے مطابق خلیفہ نے اپنے ایرانی ورثے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی ایجنٹس سے رابطہ کیا اور حساس فوجی معلومات فراہم کیں۔
جج چیما-گرب نے کہا کہ خلیفہ نے فوجی تربیت کے دوران حساس مواد کو فوٹوگرافی کر کے ایران کے ایجنٹس کو بھیجا، جنہوں نے اس سے قیمتی معلومات حاصل کیں۔
اس نے نہ صرف فوجی اہلکاروں کے نام اور تفصیلات فراہم کیں بلکہ کچھ معلومات تو وہ بھی ہو سکتی تھیں جو برطانوی فوج کی آپریشنل سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتی تھیں۔
جج نے مزید کہا کہ “آپ نے معلومات کو ایران کے ایجنٹس تک پہنچانے کے لئے اس قدر جرات دکھائی کہ یہ نہ صرف آپ کی بیوقوفی بلکہ ہمارے نظام کے لئے ایک سنگین خطرہ تھا۔”
خلیفہ کے جیل سے فرار ہونے کے بعد پولیس کی تحقیقات نے اس کے ایران کے ساتھ تعلقات کا پردہ فاش کیا۔
وہ نہ صرف ایران کے ایجنٹس سے رابطے میں تھا بلکہ اس نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
جیل سے فرار کے دوران اس نے ایران کو ایک پیغام بھیجا جس میں کہا کہ “میں انتظار کر رہا ہوں۔”
یہ پیغام ایک نیا سوال اٹھاتا ہے کہ آیا وہ دوبارہ ایران سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سمجھ نہیں آتا جشن منائیں یا ماتم کریں’ شامی شہر حماۃ میں خوفناک قتل عام کے 43 برس
عدالت میں پیش کی گئی شہادتوں کے مطابق خلیفہ نے ایران سے ایک ہزار پاؤنڈ کی رقم بھی وصول کی تھی جس کا مقصد ایران کے ایجنٹس کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنا تھا۔
اس نے ایک قبرستان میں اس رقم کو وصول کیا جہاں اس کا ایرانی رابطہ اس سے ملنے آیا تھا۔
اس کے علاوہ خلیفہ نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں ایک گمنام ای میل بھی بھیجی تھی جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک ‘ڈبل ایجنٹ’ بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کا مقصد ایران کی معلومات حاصل کرنا تھا تاکہ وہ برطانیہ کے مفادات کے لیے کام کرے مگر حقیقت میں اس نے دشمن ریاست کے مفادات کو ترجیح دی۔
جج چیما-گرب نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ نے اپنی فوجی خدمات کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا اور برطانیہ کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔
جج نے کہا کہ “آپ نے ایک خطرناک راستہ اختیار کیا اور اس کا خمیازہ اب آپ کو بھگتنا پڑے گا۔”

(فائل فوٹو /گوگل)
خلیفہ کی سزا کا اعلان کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اس کی حرکتوں سے نہ صرف برطانیہ کی سیکیورٹی بلکہ فوجی اہلکاروں کی زندگیوں کو بھی خطرہ لاحق ہوا۔
جج نے اس کی سزا کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ کو مجموعی طور پر 14 سال اور 3 ماہ کی سزا دی گئی ہے۔
اس میں چھ سال کی سزا ‘آفیشل سیکریٹس ایکٹ’ کی خلاف ورزی کے الزام میں چھ سال کی سزا ‘دہشت گردی ایکٹ’ کے تحت اور دو سال تین ماہ کی سزا جیل سے فرار کے الزام میں شامل ہے۔
پولیس کے کمانڈر ڈومینک مرفی نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ “یہ سزا اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ برطانوی سیکیورٹی کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے لئے سزا کتنی سخت ہوگی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “ایران جیسے دشمن ملکوں سے تعلقات قائم کرنے اور برطانوی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔”
ڈینیئل خلیفہ کا کیس ایک سبق بن کر سامنے آیا ہے کہ ریاست کے اندر جاسوسی اور غداری کی کوشش کرنے والوں کے لئے کوئی معافی نہیں ہو گی۔
اس کی سزا نے یہ ثابت کر دیا کہ قومی مفادات کو خطرے میں ڈالنا اور فوجی راز افشا کرنا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔