کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم کے خلیے بے قابو ہو کر بڑھنے لگتے ہیں اور جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ بیماری عام طور پر جینیاتی تغیرات کی وجہ سے ہوتی ہے اور مختلف اقسام میں پائی جاتی ہے۔
لاہور کے نجی ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “کینسر کی متعدد اقسام ہیں، جن میں بریسٹ کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، خون کا کینسر (لیوکیمیا)، اور کولون کینسر شامل ہیں۔ کینسر عام طور پر جینیاتی تبدیلیوں، تمباکو نوشی، غیر صحت بخش خوراک، موٹاپے اور ماحولیاتی عوامل جیسے ریڈی ایشن یا زہریلے کیمیکلز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جلد تشخیص اور مناسب علاج سے اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔”
کینسر کی علامات میں غیر معمولی گلٹیاں، وزن میں اچانک کمی یا اضافہ، مسلسل تھکاوٹ، جلد پر غیر معمولی تبدیلیاں، مستقل کھانسی، آواز میں تبدیلی، کھانے میں دشواری، ہاضمے کے مسائل، خون بہنا، زخموں کا نہ ٹھیک ہونا اور مستقل جسمانی درد وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر عاصم رضا کے مطابق “کینسر کی علامات اس کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہیں، لیکن عام طور پر مسلسل تھکن، بغیر کسی وجہ کے وزن میں کمی، کسی بھی جگہ غیر معمولی گلٹی یا سوجن، طویل عرصے تک کھانسی یا خون آنا، اور زخموں کا دیر سے بھرنا شامل ہیں۔ اگر یہ علامات برقرار رہیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے معائنہ کروانا ضروری ہے۔”
عالمی سطح پر کینسر کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں موروثی (جینیاتی) عوامل، ماحولیاتی آلودگی، تابکاری اثرات، غیر صحت مند خوراک، موٹاپا، تمباکو نوشی، شراب نوشی اور دیگر مضر صحت عادات شامل ہیں۔
ماہر جینیٹکس ڈاکٹر خدیجہ قمر نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” تمباکو نوشی اور شراب نوشی میں موجود مضر کیمیکل خلیوں کے ڈی این اے کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے کینسر پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تمباکو میں شامل نکوٹین اور دیگر زہریلے اجزا خاص طور پر پھیپھڑوں، منہ، گلے اور مثانے کے کینسر کا سبب بن سکتے ہیں، جبکہ شراب نوشی جگر، معدے اور بریسٹ کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ ان عادات سے پرہیز کر کے کینسر سے بچاؤ ممکن ہے۔”

کینسر یا سرطان کی کئی اقسام ہیں اور ان سے بچاؤ کے طریقوں پر سبھی ماہرین متفق بھی نہیں ہیں، تاہم محققین اس بات پر ضرور اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ طرزِ زندگی بدلنے سے کینسر کی نصف سے زائد اقسام سے بچاؤ ممکن ہے۔
ڈاکٹر خدیجہ کے نزدیک “صحت مند خوراک اور باقاعدہ ورزش کینسر کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہیں، لیکن یہ خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جینیاتی عوامل، ماحولیاتی آلودگی، اور کچھ وائرس بھی کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ باقاعدہ طبی معائنہ بھی ضروری ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کو بروقت پہچانا جا سکے۔”
طبی ماہرین کے مطابق طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں جیسے متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش، وزن کو کنٹرول میں رکھنا اور نشہ آور اشیا سے پرہیز کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ابتدائی تشخیص، جدید علاج اور احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مہلک بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش، اور وزن کو کنٹرول میں رکھ کر کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ صحت مند طرزِ زندگی مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے اور جسم کو ان عوامل سے بچاتی ہے جو کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم جینیاتی عوامل اور ماحولیاتی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے باقاعدہ طبی معائنہ بھی ضروری ہے۔”
متوازن اور صحت مند خوراک جیسے نامیاتی غذا، سبزیاں، پھل اور کم چکنائی والے کھانے جسمانی قوت مدافعت کو مضبوط بناتے ہیں۔ باقاعدہ ورزش اور جسمانی سرگرمیاں موٹاپے، دل کی بیماریوں اور کینسر کے امکانات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ خاص طور پرتمباکو اور الکحل سے پرہیز صحت مند طرزِ زندگی کا لازمی جزو ہے۔ ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

ڈاکٹر خدیجہ قمر کے مطابق “ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہیں، جس سے کینسر کے خلیے بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مسلسل تناؤ کی حالت میں ہارمونز کی عدم توازن پیدا ہو سکتی ہے، جو کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ اس لیے ذہنی سکون اور مناسب نیند صحت کے لیے ضروری ہیں۔”
طبی ماہرین کے مطابق طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں بیماریوں کے خطرے کو کم کر سکتی ہیں، مگر جینیاتی عوامل بھی کینسر کے امکانات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جن پر طرزِ زندگی کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “جینیاتی عوامل بعض صورتوں میں اتنے طاقتور ہو سکتے ہیں کہ صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کے باوجود بھی کینسر ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ کچھ مخصوص جینیاتی تغیرات (mutations) موروثی طور پر منتقل ہوتے ہیں، جو کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ تاہم متوازن غذا، باقاعدہ ورزش، اور نقصان دہ عادات سے پرہیز کرنے سے اس خطرے کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔”
دوسری طرف قدرتی جڑی بوٹیاں اور روایتی ادویات بھی مریضوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں، مگر ماہرین انہیں مکمل علاج کا متبادل نہیں سمجھتے۔ پاکستان میں بھی بہت سے افراد اس بیماری کی علامات کو نظرانداز کرتے ہیں اور روایتی ٹوٹکوں پر انحصار کرتے ہیں جس سے یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر خدیجہ قمر کے نزدیک ” متبادل طریقہ علاج جیسے ہربل میڈیسن یا ہومیوپیتھی بعض کیسز میں مدافعتی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ کینسر کے مکمل علاج یا بچاؤ میں مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔ کینسر کا مؤثر علاج جدید طبی طریقوں جیسے کیموتھراپی، ریڈیوتھراپی، اور سرجری سے ممکن ہے، اس لیے مریضوں کو مستند طبی ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے اور بغیر تحقیق کے کسی بھی متبادل علاج پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔”

کینسر کے خلاف مؤثر حکمت عملی سے ہی لڑا جا سکتا ہے جس کے لیے جدید میڈیکل سائنس، جلد تشخیص اور احتیاطی تدابیر کا امتزاج ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں آئے روز کینسر کے کیسز میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے،جس کی بڑی وجہ عوامی شعور کی کمی اور غلط فہمیاں ہیں، جو اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا رہی ہیں۔
ڈاکٹر خدیجہ قمر کے ماننا ہے کہ ” پاکستان میں کینسر کے مریضوں میں اضافہ غیر صحت بخش طرزِ زندگی، تمباکو نوشی، ناقص خوراک، ماحولیاتی آلودگی اور جینیاتی عوامل کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ، دیر سے تشخیص، طبی سہولیات تک محدود رسائی، اور عوام میں آگاہی کی کمی بھی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ بروقت تشخیص اور صحت مند طرزِ زندگی اپنا کر اس بیماری کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔”
حکومتی سطح پر صحت کا شعبہ کافی مسائل سے دوچار ہے، سرکاری ہسپتالوں میں کینسر کی تشخیص اور علاج کے لیے محدود سہولیات موجود ہیں۔ دوسری جانب نجی ہسپتالوں کے اخراجات برداشت کرنا غریب آدمی کے بس سے باہر ہے۔
ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “کینسر سے بچاؤ کے لیے حکومت کو عوام میں آگاہی مہم چلانے، تمباکو اور غیر معیاری خوراک پر سخت پابندیاں لگانے، اور ابتدائی تشخیص کے مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، تحقیق اور علاج کی سہولیات کو بہتر بنانا، ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا، اور صحت مند طرزِ زندگی کے فروغ کے لیے اقدامات کرنا بھی ضروری ہے تاکہ کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکا جا سکے۔”
عالمی یومِ کینسر پر اس مہلک بیماری سے بچاؤ کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ کینسر سے چھٹکارا پانے کے لیے ضروری ہے کہ سستے اور مؤثر علاج فراہم کیا جائے۔ عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں اور ابتدائی تشخیص کے نظام کو مضبوط بنایا جائے تاکہ ایک صحت مند پاکستان کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ اب ہمیں مل کر شعور بیدار کرنا ہوگا تاکہ زیادہ سے زیادہ زندگیاں بچائی جا سکیں۔