Follw Us on:

وزیراعلیٰ کے لاہورمیں ڈیرے، جنوبی پنجاب مریم نواز کی عدم توجہ کا شکار

مادھو لعل
مادھو لعل
2013 اور 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں بڑی جماعتوں  نے جنوبی پنجاب کی ترقی کو اپنے منشور کا حصہ بنایا تھا۔ (فوٹو: فیسبک)

پنجاب میں جو بھی حکمران بنا وہ دارالحکومت سے باہر نہیں نکلا، چاہے وہ منتخب ہو یا نگران وزیراعلیٰ۔ دونوں کی توجہ لاہور پر ہی رہی ہے۔ الزام ہے کہ مریم نواز تو ہیں ہی اسی شہر کی اور یہ ہی ان کی توجہ کا محور ہے۔ 

گزشتہ دو دہائیوں سے پنجاب میں مسلم لیگ ن کا راج رہا ہے، مگر پچھلے دو انتخابات میں آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی غیر معمولی سیاسی حمایت دیکھنے میں آئی، جس نے مسلم لیگ ن کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔

ن لیگ کا پنجاب کو لے کر یہی بیانیہ رہا کہ پنجاب میں تعمیراتی ترقی ن لیگ کی ہی بدولت ہوئی ہے اور اس وقت بھی ن لیگ تعمیراتی کاموں پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، مگر کیا واقعی ن لیگ نے پورے پنجاب میں مساوی کام کیے ہیں؟

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما صائمہ کنول نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے پسماندہ ہونے کی بڑی وجہ بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔

’حکومتی عہدے داروں کی توجہ صرف لاہور پر ہے، جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ حکومتی کابینہ کی اپنی رہائش بھی لاہور میں ہے، اس کے علاوہ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے ارکان زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر توجہ اور بجٹ لاہور کو دیا جاتا ہے‘۔

وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے لاہور کو خصوصی اہمیت دی ہے اور  بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کے منصوبے، سڑکوں کی تعمیر اور ماس ٹرانزٹ سسٹم پر خصوصی توجہ دی  ہے جب کہ اس کے برعکس جنوبی پنجاب کے عوام کا سوال ہے کہ کیا ان کے علاقوں کو بھی لاہور جتنی توجہ کبھی حاصل ہو پائے گی؟

گزشتہ دو دہائیوں سے پنجاب میں مسلم لیگ ن کا راج رہا ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

شعبہ سیاسیات اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کی بنیادی وجہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، تعلیمی و صنعتی ترقی کی کمی اور حکومتی ترجیحات کا عدم توازن ہے‘۔

انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ’ لاہور کو سیاسی، تجارتی اور ثقافتی مرکز ہونے کے باعث زیادہ توجہ اور فنڈنگ دی جاتی ہے، جبکہ جنوبی پنجاب کو زرعی علاقہ سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ تعلیمی پسماندگی، بےروزگاری، سیاسی بےچینی اور زرعی بحران کی صورت میں نکل رہا ہے‘۔

واضح رہے کہ یہ سوال محض کسی سیاسی نعرے یا تنقید کا حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے اس علاقے کی محرومیوں کو کم کرنے کے وعدے کیے، جومحض کھوکھلے دعوے ہی ثابت ہوئے۔

یاد رہے کہ جنوبی پنجاب کا یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں بڑی جماعتوں  نے جنوبی پنجاب کی ترقی کو اپنے منشور کا حصہ بنایا تھا۔

 2018 میں تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ کیا اور اس مقصد کے لیے ایک سیکریٹریٹ بھی قائم کیا گیا، لیکن مکمل صوبہ بنانے کے حوالے سے کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے  2013 سے 2018 کے دور میں بھی جنوبی پنجاب کے لیے کچھ ترقیاتی منصوبے ضرور بنائے گئے، لیکن زیادہ تر فنڈز لاہور اور دیگر بڑے شہروں پر خرچ کیے گئے۔

یہی صورت حال موجودہ ن لیگی حکومت میں بھی نظر آ رہی ہے۔ مریم نواز کی حکومت کے ابتدائی بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شامل نہیں کیا گیا، جب کہ لاہور میں ترقیاتی کاموں پر خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز  نے اپنے دور حکومت کے آغاز میں لاہور کو جدید ترین شہر بنانے کے لیے متعدد منصوبے شروع کیے، جن میں جدید ٹریفک مینجمنٹ سسٹم، انڈر پاسز، اور ایلیویٹڈ ایکسپریس وے جیسے منصوبے شامل ہیں۔

جنوبی پنجاب میں کئی تنظیمیں ایسی موجود ہیں جو جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ (فوٹو: فیسبک)

اس کے علاوہ لاہور میں صحت، تعلیم، اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی متعدد اصلاحات کی جا رہی ہیں۔

لیکن دوسری جانب جنوبی پنجاب کے شہری ابھی تک ان بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ وہاں کے عوام بنیادی انفراسٹرکچر، معیاری صحت اور تعلیم کی عدم دستیابی، اور روزگار کے کم مواقع جیسے مسائل کا سامنا کر 

رہے ہیں۔

اگر جنوبی پنجاب اور لاہورکےبجٹ کا جائزہ لیا جائے تو فرق واضح نظر آتا ہے۔ پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) میں 2023- 24 کے دوران لاہور کے لیے 120 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے، جب کہ جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع کے لیے مشترکہ طور پر 200 ارب روپے مختص گئے۔

حیران کن بات یہ ہے  جنوبی پنجاب کے لیے مختص کی گئی رقم بھی مکمل طور پر جاری نہیں کی گئی اور بیشتر ترقیاتی منصوبے فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث تعطل کا شکار ہیں۔

مریم نواز کی حکومت نے 2024-25 کے بجٹ میں لاہور کے ماس ٹرانزٹ منصوبوں اور انفراسٹرکچر پر مزید اربوں روپے خرچ کرنے کا اعلان کیا، لیکن جنوبی پنجاب میں کوئی بڑا نیا منصوبہ شامل نہیں کیا گیا۔

اس وقت جنوبی پنجاب میں کئی تنظیمیں ایسی موجود ہیں جو جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں، تاکہ وہاں کے لوگوں کے لیے علیحدہ صوبائی بجٹ مختص ہو اور وہ ترقیاتی کام کیے جائیں۔

حکومتِ پنجاب کو اس پر خصوصی توجہ دینی ہوگی نہیں تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلوچستان جیسے حالات جنوبی پنجاب میں بھی پیدا ہوجائیں اور شدت پسند تحریکیں جنم لے لیں، جس سےکھلے عام انسانیت کا استحصال ہوگا۔

رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی ایم پی اے صائمہ کنول نے کہا ہے کہ لاہور ڈویژن کا بجٹ جنوبی پنجاب کے بجٹ کے لگ بھگ برابر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت ملکی سطح پر لاہور کو دکھا کر کہتی ہے کہ پنجاب نے ان کے دور میں اتنی ترقی کی ہے۔

حکومت نے 2024-25 کے بجٹ میں لاہور کے ماس ٹرانزٹ منصوبوں اور انفراسٹرکچر پر مزید اربوں روپے خرچ کرنے کا اعلان کی۔ (فوٹو: ایکس)

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے برعکس جنوبی پنجاب پر توجہ نہیں دی جا رہی، جب صوبے کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ایک شہر کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور باقی صوبہ پسماندہ رہ جاتا ہے کیونکہ وہاں پر لوگوں کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہوتیں اوریہی جنوبی پنجاب کے ساتھ ہوا ہے‘۔

بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں بیروزگاری اور ناخواندگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس سے غربت نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔

جنوبی پنجاب کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اسے ایک علیحدہ صوبہ بنایا جائے تا کہ بجٹ کی منصفانہ تقسیم ہو سکے، جس سے یہاں بھی تعلیمی معیار بہتر ہو اور صحت کی شعبے میں بھی ترقی ہو۔

پروفیسر ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی نے کہا ہے کہ ’جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے، جو وسائل کی منصفانہ تقسیم اور انتظامی بہتری میں مدد دے سکتا ہے، مگر یہ صرف نعرہ نہیں بلکہ عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔ جنوبی پنجاب کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں‘۔

جنوبی پنجاب کے ساتھ پنجاب حکومت سوتیلی ماں والا سلوک کر رہی ہے اور ایسا گزشتہ ایک بڑے عرصے سے ہو رہا ہے، اس کا ایک حل ہے کہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس