ایل سلواڈور نے امریکی انتظامیہ کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ طے کیا ہے جو عالمی سطح پر غیر معمولی اور متنازعہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت، سلواڈور نے نہ صرف امریکا میں موجود پرتشدد مجرموں کو پناہ دینے کا وعدہ کیا بلکہ دنیا بھر سے جلاوطن کیے گئے افراد کو بھی اپنے ملک میں قبول کرنے کی پیش کش کی ہے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی قومیت سے ہو۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس معاہدے کا اعلان کیا، جو ان کے مطابق امریکا اور ایل سلواڈور کے درمیان غیر معمولی دوستی کی علامت ہے۔
اس معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد، سلواڈور کے صدر نائف بوکیلے نے ایک عوامی پوسٹ کے ذریعے اس کا باضابطہ طور پر اعلان کیا اور کہا کہ ان کا ملک امریکا سے سزا یافتہ مجرموں بشمول امریکی شہریوں اور قانونی رہائشیوں کو اپنی جیلوں میں رکھنے کے لیے تیار ہے۔ بوکیلے نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ فیس کی بنیاد پر ہوگا، جو امریکا کے لیے نسبتاً کم ہوگی لیکن ایل سلواڈور کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی، کیونکہ اس سے ان کے جیلوں کے نظام کی پائیداری کو یقینی بنایا جا سکے گا۔
اس معاہدے میں خاص بات یہ ہے کہ امریکا میں موجود وہ افراد جو غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہوئے ہیں اور جنہیں مختلف جرائم میں ملوث سمجھا گیا ہے، انہیں ایل سلواڈور منتقل کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایم ایس 13 اور ٹرین ڈی اراگوا جیسے مشہور جرائم پیشہ گروپوں کے ارکان کو بھی امریکا سے ملک بدر کیا جائے گا اور انہیں ایل سلواڈور کی جیلوں میں رکھا جائے گا۔
اس معاہدے کے نتیجے میں عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس معاہدے کی سختی سے مخالفت کی ہے، اور ناقدین نے اسے جمہوریت کے لیے ایک خطرناک قدم قرار دیا ہے۔ جس کے بارے میں ‘لیگ آف یونائیٹڈ لاطینی امریکی سٹیزن’ (ایل یو ایل اے سی) کے قومی صدر رومن پالومارس نے کہا کہ یہ معاہدہ غیر مجرمانہ جلاوطنوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد صرف اس وجہ سے دوسرے ملک بھیجے جا رہے ہیں کہ وہ اپنی قوم سے جلاوطن ہو گئے ہیں، اور ان کی زندگیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق، یہ معاہدہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہو سکتا ہے۔ ایمرسن کالج کی پروفیسر منیشا گیلمین نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا بنیادی طور پر ان افراد کو ایک ایسے ملک بھیجنے کی تجویز دے رہا ہے جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی یہ ان کا اصل وطن ہے۔ یہ اقدام عالمی تارکین وطن کے حقوق سے متعلق قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور عالمی سیاست میں ایک نئی پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے۔
ایک اور اہم پہلو اس معاہدے کا یہ ہے جس میں سلواڈور کے قانون کے مطابق گینگ کے ممبر اور دیگر مجرموں کے درمیان فرق نہیں کیا جاتا۔ ایل سلواڈور نے 2022 سے ایک ایمرجنسی نافذ کی ہے جس کے تحت حکومت کسی بھی شخص کو صرف گینگ کا رکن ہونے کے شک پر حراست میں لے سکتی ہے۔ اس ایمرجنسی کے نتیجے میں 80,000 سے زائد افراد جیلوں میں قید ہیں، جن میں سے بیشتر بے گناہ ہیں، اور یہ بات انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے ایک سنگین تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔
اگرچہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے مفید نظر آ سکتا ہے، تاہم اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اخلاقی اور قانونی پیچیدگیاں ایک طویل عرصے تک عالمی سطح پر بحث کا باعث بن سکتی ہیں۔ جیسے جیسے یہ معاہدہ عمل میں آتا ہے، دنیا بھر کے حقوق کے علمبردار اس پر نظر رکھیں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس کے ذریعے کسی بھی فرد کے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔