افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی نے نہ صرف عالمی سطح پر احتجاج کو جنم دیا بلکہ طالبان حکومت کے اندر بھی اس مسئلے پر شدید اختلافات پیدا کر دیے ہیں۔
ایک حیران کن رپورٹ کے مطابق طالبان کی وزارت خارجہ کے سینیئر وزیر ‘شیر عباس ستنکزئی’ نے حال ہی میں اس پابندی کی کھل کر مذمت کی تھی اور اس کی وجہ سے انہیں اپنے ہی حکومتی حلقوں کی طرف سے سنگین ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
جنوری 2025 میں شیر عباس ستنکزئی نے طالبان کے دیگر رہنماؤں سے واضح طور پر اپیل کی تھی کہ وہ لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیمی ادارے کھولیں۔
اس وقت انہوں نے کہا تھا “تعلیم پر پابندی کا حکم شریعت کے مطابق نہیں۔ نہ اب، نہ ہی مستقبل میں۔”
ستنکزئی کا کہنا تھا کہ “ہم دو کروڑ افراد کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔” ان کا اشارہ افغانستان کی نصف آبادی، یعنی خواتین اور لڑکیوں کی طرف تھا جو تعلیم سے محروم ہو چکی ہیں۔

(فائل فوٹو)
یہ بیان ایک بہت بڑی تبدیلی کی علامت ہے کیونکہ طالبان حکومت میں شاذ و نادر ہی اس قسم کے اختلافات سامنے آتے ہیں۔ یہ بیان طالبان کے تعلیمی پابندیوں کے خلاف پہلی کھلی مخالفت تھی اور اس نے دنیا بھر کی توجہ کو اپنی جانب کھینچ لیا۔
لیکن اس کے فوراً بعد طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے ستنکزئی کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا اور انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ کی جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر حماس کا ماسکو میں اہم اجلاس
طالبان کے اندرونی اختلافات اس وقت منظرعام پر آئے جب اس بات کی اطلاع ملی کہ شیر عباس ستنکزئی ملک چھوڑ کر متحدہ عرب امارات روانہ ہو گئے ہیں۔
کچھ ذرائع کے مطابق وہ طالبان کی گرفتاری سے بچنے کے لیے فرار ہوئے، جبکہ خود ستنکزئی نے اس کی وجہ صحت کے مسائل بتائی۔ تاہم، طالبان کے ساتھ ستنکزئی کا یہ اختلاف ایک ایسا سنگین موڑ تھا جسے عالمی برادری اور طالبان کے اندر موجود اعتدال پسندوں کے لیے ایک دھچکا سمجھا گیا۔
سترہ سال بعد طالبان کے قبضے کے دوران افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی نے پورے ملک کو ایک عالمی بحران میں بدل دیا ہے۔
طالبان کی حکومت نے لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اسکول جانے کی اجازت نہیں دی، جس کے نتیجے میں افغان خواتین کی تعلیم کی شرح میں زبردست کمی آئی ہے اور عالمی سطح پر طالبان حکومت کی سخت تنقید ہوئی ہے۔
دوسری جانب شیر عباس ستنکزئی کا یہ اقدام طالبان کے اندرونی تضادات اور اختلافات کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
طالبان کی قیادت کے دو بڑے دھڑے ہیں ایک قندھار میں مقیم ہے، جس کی طاقت اور اثر و رسوخ بیشتر افغانستان پر ہے جبکہ دوسرا دھڑا کابل میں ہے جو زیادہ عالمی تعلقات رکھتا ہے۔
ستنکزئی، جو طالبان کے نسبتاً اعتدال پسند رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں، ان اختلافات کے مرکز میں ہیں۔
افغانستان انٹرنیشنل رپوٹ مطابق نہ صرف ستنکزئی بلکہ طالبان کے نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری نے بھی حالیہ دنوں میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کی زہر آلود اثرات کے بارے میں بات کی۔

(فائل فوٹو)
‘خوست’ میں ایک مقامی تقریب کے دوران عمری آبدیدہ ہو گئے اور ان کے جذباتی ردعمل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
ان کا کہنا تھا، “جب مذہبی تعلیم کی اجازت ہے، تو جدید علوم کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔ خدا ہمیں صحیح راستہ دکھائے۔”
ضرور پڑھیں: شمالی کوریا کے فوجی روس-یوکرین محاذ سے واپسی پر مجبور، بھاری نقصان کی اطلاعات
یہ ساری صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ طالبان حکومت میں داخلی سطح پر ایک بہت بڑی کشمکش چل رہی ہے جو نہ صرف افغان عوام کے لیے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی انتہائی تشویش کا باعث بن چکی ہے۔
عالمی سطح پر طالبان پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں، لیکن ان کے اندرونی اختلافات اور مختلف دھڑوں کی آپس کی لڑائی اس بات کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔
شیر عباس ستنکزئی کا فرار اور طالبان کے اندر تعلیمی پابندی پر موجود اختلافات ایک ایسی گونج پیدا کر رہے ہیں جس سے مستقبل قریب میں طالبان کے اندر مزید بے چینی اور تنازعہ بڑھنے کا امکان ہے۔
اس کے ساتھ ہی عالمی برادری یہ دیکھ رہی ہے کہ آیا طالبان حکومت اپنے فیصلوں میں نرمی لائے گی یا اپنی روایات کے مطابق اپنی سخت گیر پالیسیوں کو جاری رکھے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا طالبان کی قیادت آخرکار اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائے گی یا وہ اسی راستے پر چلتے رہیں گے جو انہیں عالمی سطح پر تنہائی کا شکار کر رہا ہے۔